فاروق طارق
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس کے بعد وزیر دفاع کے اس بیان کو کہ تمام سیاسی جماعتوں نے آرمی چیف کی ایکسٹینشن آئینی ترمیم پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کو مسلم لیگ ن نے غلط قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ابھی اتفاق نہیں ہوا۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی جانب سے اس آئینی ترمیم کی حمائیت کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر ان دو پارٹیوں کے خلاف جو زبردست ردعمل ہوا، شاید مسلم لیگ ن اس سے ہونے والے سیاسی نقصان کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں ہے۔ کل میاں نواز شریف نے اس آئینی ترمیم کی غیر مشروط حمائیت کا اعلان کیا تھا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے آرمی چیف کی ایکسٹینشن بارے ترامیم کی پارلیمنٹ میں حمایت نے ایک دفعہ پھر ان کے سیاسی دیوالیہ پن کو بے نقاب کیا ہے۔
ایکسٹینشن کے خلاف سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں نے ان بڑی سیاسی جماعتوں کو موقع فراہم کیا تھا کہ وہ اصولی طور پر کسی ایک عہدہ پر سینئر کی از خود ترقی کی حمایت کرتے مگر اب یہ موقع ضائع کر دیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ہونے والے چند تبصرے ملاحظہ فرمائیں جس سے ان دونوں جماعتوں کے اس غیر اصولی موقف پر عوام کے زبردست غصے کا اظہار ہوتا ہے۔
رؤف خان لنڈلکھتے ہیں، ”گرنے والے گہرائی نہیں دیکھتے! اس قول کی حقیقت سمجھنا ہو تو جرنیل شاہی کے خلاف لڑنے کی تاریخ رکھنے والی پی پی پی کی موجودہ حالت ملاحظہ کرلیں۔“
خالد خان لکھتے ہیں، ”سیاست، ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔“
امر سندھو کہتی ہیں، ”بنی گالہ، جاتی عمرہ، باچاخان مرکزاورگڑھی خدا بخش سب سے یکساں نتائج آرہے ہیں۔ بوٹ کو واضح برتری حاصل ہے۔“
سرتاج خان کا خیال ہے، ”ملک میں سرمایہ دارانہ جمہوریت اور پارلیمانی سیاسی جماعتوں کا جنازہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ زرا دھوم سے نکلے۔“
شاہد شیخ کا یہ منفرد تجزیہ ہے، ”بانیان پاکستان نے بہت محنت کے ساتھ مسلح افواج کے لئے ایک ملک حاصل کیا تھا لیکن اس ملک کے سیاست دان ہمیشہ کوئی نہ کوئی گڑ بڑ کر دیتے ہیں پھر انہیں اپنا کیا کرایا بھی خود ہی صاف کرنا پڑتا ہے۔ اب پی ٹی آئی، مسلم لیگ اور پی پی پی میں اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ ہم سب مل کر سیاست دانوں کا گند صاف کریں گے۔“
حر عباس نقوی یوں گویا ہیں ”پاکستان مسلم لیگ نون اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیہِ رَاجِعْونَ“
ایک اور مقبول کوٹیشن یہ رہی، ”بوٹ کو عزت دو“
سوشل میڈیا میں سے صرف چند ایک کو یہاں تحریر کیا گیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام بڑی سرمایہ دار جماعتیں اصولی موقف کی بجائے ہر وقت موقعوں کی تلاش میں مصالحت کرتی ہیں تا کہ ان کو اقتدار میں آنے میں مدد ملتی رہے۔ ایک عجیب گھن چکر ہے جس میں یہ مسلسل گھوم رہے ہیں اور عوام پستے جا رہے ہیں۔
سویلین سپرمیسی کی بات کرنے والی مسلم لیگ ن کو اس ایشو پر دیر بعد جب پہلا سنجیدہ چیلنج ہوا تو اس آئینی ترمیم کی حمایت کا فیصلہ ہوا جس کے متن سے وہ ماضی میں انکار کرتے رہے، وہ یہ بات فخر سے بتاتے رہے تھے کہ جنرل راحیل شریف ایکسٹینشن چاہتے تھے مگر وہ اصولی طور پر اس کے خلاف ہیں اس لئے ایکسٹینشن نہیں دی گئی۔
مگر اب مسلم لیگ شاید جیلوں، سزاؤں اور دیگر ریاستی اقدامات سے تنگ آکر ایک مصالحانہ قدم اٹھا رہی ہے اور مستقبل میں اپنی اس پرانی روایت کو زندہ کر رہی ہے جب وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آنے کی جستجو کرتی تھی۔ یہ شہباز شریف کے نواز شریف کے بیانیہ پر حاوی ہونے کی عکاسی ہے۔ مسلم لیگ ن نے اگر قومی اسمبلی اور سینٹ میں اس کو منظور کرانے میں ووٹ دئیے تو اسکی موجودہ عوامی حمایت میں کافی کمی ہو گی۔
یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ اگر یہ آئینی ترمیم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مدد سے منظور ہو گئی تو اس سے ان دونوں جماعتوں کا ماضی میں بار بار دیا جانے والابیانیہ کمزور ہو گا اور دونوں کو عوام اور انکے کارکنوں کی شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑے گا۔