ربیعہ باجوہ
کل 19 جون 2020ء کو سپریم کورٹ نےایک سال کی طویل سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا۔
ملک بھر کی وکلا تنظیموں اور خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ مخالف وکلا نے یہ ریفرنس دائر ہوتے ہی اسے آزاد عدلیہ پر غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے حملہ قرار دیا تھا کیونکہ جسٹس فائز عیسی ایک انتہائی ایماندار اور آزاد منش جج سمجھے جاتےتھے۔
جسٹس فائز عیسی پر لندن میں اپنی اہلیہ کے نام پر جائیداد قائم کرنے کا الزام تھا جسے انھوں نے لغو اور بے بنیاد قرار دیا تھا۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ میں دوران سماعت مسز فائز عیسی نے ویڈیو بیان ریکارڈ کراتے ہوئے اپنی جائیداد اور ٹیکس سے متعلق تفصیلات سپریم کورٹ کو بتائیں اور دلچسپ بات کرتے ہوئے خفیہ طاقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عدالت سے کہا کہ اگر "انھیں” میرے بینک اکاونٹ کا پتہ ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اس میں خود رقم ڈال کر ہمارے اوپر الزام لگا دیتے۔ دوران بیان عدالت سے دستاویز اور اکاونٹ سمیت معلومات خفیہ رکھنے کی بھی استدعا کی۔
ریفرنس کی منسوخی کے لیے جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر منیر ملک کو اپنا وکیل مقرر کیا۔ ان کے علاوہ وکلا سیاست کے بڑے نام اور اسٹیبلشمنٹ مخالف وکلا، سابق صدور، سپریم کورٹ بار حامد خان، رشید رضوی، پارلیمنٹرین رضا ربانی اور افتخار گیلانی جسٹس عیسیٰ کی حمایت میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئےاور انکے سمیت وکلا تنظیموں نے اس ریفرنس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جس میں ہمارے انقلابی ساتھی سیکرٹری سپریم کورٹ بار شمیم الرحمٰن ملک بھی شامل تھے۔ دوران سماعت منیر ملک نے بڑی جرات سے دلائل دیے اور ایک موقع پر سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ سے کہا کہ ابھی میں ریڈ زون میں رہ کر دلائل دے رہا ہوں اور اگر آپ کو میری بات سمجھ نہ آئی تو مجھے ریڈ زون سے باہر آنا پڑے گا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے موقف کے مطابق اس ریفرنس کے محرکات میں ان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کا اسلام آباد میں تحریک لبیک کے دھرنے کے خلاف فیصلہ دینا تھا۔ جس میں انھوں نے مسلح افواج کے سربراہ ہان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے ادارے میں اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی میں ملوث پائے گئے۔ فیصلے میں ملکی سیاست میں عسکری اور خفیہ ایجنسیوں کے سیاسی کردار پر سوال اٹھائے گئے تھے۔ اسی طرح کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ میں بھی جسٹس فائز عیسیٰ نے اداروں کی ناکامی اور غفلت کا ذکر کیا اور اُس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کی کالعدم تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات پر افسوس کا اظہار بھی کیا تھا۔ عسکری ریاست کے لیے عدالت کی طرف سے اس طرح کا آزاد فیصلہ نا قابل برداشت تھا چنانچہ احتساب کا روایتی نعرہ لگا کر ایک آزاد منش جج کے خلاف ریفرنس گردی کا سہارا لیا گیا۔
بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ یہی رہی ہے کہ جس شخص نے بھی ریاست کے بیانیے کو چیلنج کیا اس کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ ماضی کی آمرانہ حکومتیں تو براہ راست جمہوریت اور شخصی آزادیوں پر حملہ آور رہیں لیکن افسوس تو یہ ہے کہ غیر جمہوری طاقتیں نام نہاد جمہوری ادوار میں بھی در پردہ متحرک ہی رہتی ہیں لیکن اس مرتبہ اسٹیبلشمنٹ خود اپنے جال میں پھنس گئی۔ سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ پاکستان کی تاریخ کے ایماندار ترین اور دلیر جج کے خلاف کرپشن کا ریفرنس بنا کر خود اپنی کم عقلی کا ثبوت دیا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ کرپشن کے بیانیے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا آور اگر پاکستان کے مستقل حکمرانوں نے اپنی سازشوں سے باز نہیں آنا تو انھیں اپنی شازشی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے بلیک میلنگ اور کرپشن سے ہٹ کر کوئی نیا کام کرنا ہو گا ورنہ اس سے زیادہ رسوائی کی گنجائش نہیں۔
بقول اعتراز احسن
عدل کے ایوانوں میں سن لو
اصلی منصف پھر آئیں گے
جاؤ جاؤ سب سے کہہ دو
قدم ہمارے رک نہیں سکتے
اپنے سر اب جھک نہیں سکتے
رستہ تھوڑا ہی باقی ہے
ظالم ڈر کے بھاگ رہا ہے
جیت ہمارا مستقبل ہے