پاکستان

فرشتوں کا قاتل سماج

اویس قرنی

ایک اور معصوم بچی جس نے مشکل سے ہی زندگی کی دس بہاریں دیکھی ہوں گی ایک لمحے میں انسانوں کے بھیس میں چھپے بھیڑیوں کا شکار بن گئی۔ شاید ہی کسی معاشرے کے لئے اس سے گہرا کوئی زخم ہو جو ہمیں کبھی قصور کی زینب اور کبھی مہمند کی فرشتہ کیساتھ ہونے والے اندوہناک واقعات کی صورت دیکھنے میں ملتا ہے۔

لیکن یہاں صرف زخم نہیں لگتے‘ زخموں پر نمک بھی چھڑکا جاتا ہے۔ فرشتہ کے حوالے سے تو اس کے والدین کے زخم کرید کرید کر نمک انڈیلا گیا۔ لاچار باپ اپنی دس سالہ بچی کی گمشدگی کی رپورٹ تھانے میں درج کروانے گیا تو ”نئے پاکستان“ میں بھی خود کو خدا سمجھنے والے پولیس اہلکار اس سے میزیں اور کرسیاں صاف کرواتے رہے اور گمشدگی کو کسی کیساتھ بھاگ جانا قرار دے کے تمسخر اڑاتے رہے۔ کیسا بے حس بنا کے رکھ دیا گیا اس سماج کو!

اور ویرانے میں پھینکی گئی بچی کی لاش، جسے کئی دن تک جنگلی درندے نوچتے رہے، کو جب ہسپتال بھیجا گیا تو سارے ڈاکٹر پوسٹ مارٹم سے انکاری تھے۔ ویسے بھی یہ پیسے کا نظام ہے جس میں آپ کے پاس مال ہے تو آپ علاج خرید لیں‘ انصاف خرید لیں‘ اور اگر نہیں ہے تو آپ کی لاشیں بھی مجروح ہوتی رہیں گی۔ اس پر سینکڑوں لوگوں نے دھرنا دیا جس کے بعد مجبور ہو کر قانون حرکت میں آیا!

اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اپنے بچوں کے مردہ جسم واپس لینے کے لئے بھی دھرنے اور احتجاج کرنے پڑتے ہیں۔

ظلم اور بے حسی کی انتہا ایک نجی ٹی وی چینل نے بھی کی۔ جہاں اس ساری بے حسی اور درندگی سے حکام کو بری الذمہ ٹھہرانے کے لئے بچی کے باپ کا تعلق افغانستان سے نکال لیا گیا۔ گویا یہ سب افغان بچوں کا مقدر ہے۔

اس قدر معاشرتی بے حسی اور ڈھٹائی پہلے تو کبھی نہ تھی۔ لیکن یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کا بحران صرف ڈالر اور روپے کو اوپر نیچے کر کے عام لوگوں کی آمدنیں اور جمع پونجیاں ہڑپ نہیں کرتا بلکہ ہر انسانی اقدار، ہر جذبے اور سوچ کو بھی مجروح کر دیتا ہے۔ اور اس کے بحران کی طوالت پہلے سے کہیں زیادہ گھناؤنے اور دل دہلا دینے والے واقعات کو جنم دے رہی ہے۔

ایسے واقعات اب معمول بنتے جا رہے ہیں۔ لیکن ان میں چند ایک ہی عوامی احتجاجوں کے ذریعے منظر عام پہ آ کے ہر حساس انسان کو جھنجوڑ کے رکھ دیتے ہیں۔

اس سے قبل جنوری 2018ء میں ہمیں قصور میں 7 سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل کا دلسوز واقعہ دیکھنے کو ملا تھا۔ کئی ہفتوں کی تفتیش کے بعد حکمرانوں نے زینب کے ہمسائے اور قاتل ’عمران نقشبندی‘ کو گرفتار کیا۔اس درندہ صفت انسان کو سزائے موت بھی ہو گئی جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ کوئی ارب پتی نہیں تھا۔ لگ ایسے رہا تھا کہ اس وحشت کا انت ہوا چاہتا ہے۔ ہردل، ہر انسان، ہر گھر سوگوار بھی تھا اورہر ذی شعور انسان میں غصہ بھی ابل رہا تھا۔ لیکن پھر مجرم کی پھانسی کے بعد سب کچھ ویسا ہو گیا جیسا تھا۔ گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

’ساحل‘ نامی تنظیم کی ایک حالیہ رپورٹ میں حیران کن انکشافات ہوئے ہیں جن کے مطابق یہاں ہر روز 10 سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں جن میں پچھلے سال 2017ء کی نسبت 11 فیصد ہوا ہے۔ اور یہ اعداد و شمار بھی حقیقی صورتحال کا شاید عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔

حکمرانوں کی تمام تر پھرتیوں، احکامات و بیانات کے باوجود یہ حقیقت ہے ایک اور کلی مسل دی گئی ہے۔لیکن اب کی بار جو بر سر اقتدار ہیں ان میں ہیجان ہی اتنا ہے کہ انہیں سمجھ نہیں آ پا رہی کہاں سیاسی چورن بیچنا ہے اور کہاں نازک معاملات میں کوئی پیش قدمی کرنی ہے۔

یہ معصوم بچے ہیں۔ ان کی معصومیت اور زندگی کی قیمت ہر قسم کی شناخت، قوم، زبان اور مسلک سے ماورا ہے۔ اور اگر کسی کم ظرف میں قومیت کی وابستگی کی وجہ سے یہ تکلیف کم ہے تو وہ انسان کہلائے جانے کے لائق نہیں ہے۔

اس قسم کے واقعات آئے روز گلی محلوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں جن پر خاندانی عزت کی مہر لگا کے چپ سادھ لی جاتی ہے۔ عوامی دباؤ کی وجہ سے اس قسم کے واقعات جب خبروں میں آتے ہیں تو کارپوریٹ میڈیا کچھ دن اپنی ریٹنگ بڑھانے کے بعد بڑی عیاری سے سارے معاملے کو گڈ مڈ کر کے دبا دیتا ہے۔ اور اس سے قبل بلادکار کی شکار معصوم بچیوں کا ہر پانچ منٹ بعد بریکنگ نیوز کی شکل میں دوبارہ بلادکار کیا جا رہا ہوتا ہے۔

یہاں کی نام نہاد ’سول سوسائٹی‘ اور این جی اوز بھی اپنے کاروبار چمکانے کے لئے ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

نظام میں اصلاحات کے درس دینے والے ایسے واقعات کوسطحی انداز سے دیکھتے ہیں اور وقتی و سطحی حل ہی پیش کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بچوں کو سکولوں میں سیکس ایجوکیشن دی جانی چاہیے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہوں اور 60 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو وہاں سیکس ایجوکیشن بہت آگے کا سوال بن جاتا ہے۔

ویسے بھی یہاں بچے سب سے زیادہ غیر محفوظ سکولوں، مدرسوں اور گلی محلوں میں ہی ہیں۔ پھر اگر بچے غیر محفوط ہیں تو بڑوں کی عزتیں کہاں محفوظ ہیں۔ یہاں فیکٹریوں سے لے کر کھیتوں اور دفاتر تک ہر روز مرد و زن کی عصمتیں نوکریاں بچانے میں لٹتی ہیں۔

اِس سماج کی رگوں میں سرایت شدہ گھٹن اور رجعت کے زہر کا خاتمہ اس وقت تک مشکل ہے جب تک ایک انقلابی جراحی کے ذریعے سماج کی بنیادی ساخت کو یکسر تبدیل نہ کر دیا جائے۔

سارے خطے کی یہی صورتحال ہے۔ 2016ء کی ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر روز 106 جنسی بلادکار کے واقعات دیکھنے کو ملے جن میں سے بیشتر میں 12 سال سے کم عمر کی بچیاں شکار بنیں۔ بنگلہ دیش میں ہر روز 49 بچوں کا بلادکار ہوتا ہے۔

لیکن صرف سابق نوآبادیاتی ملکوں کی قدامت پرستی بھی اس سب کی وجہ نہیں ہے۔ مغربی معاشروں میں بھی تمام تر قانون سازیوں کے باوجود بلاد کار ختم نہیں ہوئے۔ امریکہ میں تو ہر 98 سیکنڈ میں کوئی انسان کسی نہ کسی شکل میں جنسی حملے یا ہراسانی کا شکار ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ شرح رپورٹوں سے کہیں زیادہ ہے۔

کسی بھی سماج کو محض قانون سازی کے ذریعے مہذب نہیں بنایا جا سکتا۔ ٹھوس مادی ترقی ہی صحت مند سماجوں کی تشکیل کرتی ہے۔ اور جب کسی نظام میں یہ ترقی دینے کی سکت ہی ختم ہوجائے تو وہاں سیکولرازم کا ٹھپا لگا دینے سے ان سماجوں یا ریاستوں کا کردار ترقی پسندانہ نہیں ہو جایا کرتا۔

معاشرے جب آگے نہیں بڑھ پاتے تو ناگزیر تو پر تعفن زدہ ہو جاتے ہیں۔ شعور جو انسان کو تخلیق اور تعمیر کی معراج پر لے کر جاتا ہے، کی پستی اور پراگندگی اسے وحشی جانوروں سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ یہی سب کچھ ہمیں ایسی درندگیوں کی شکل میں نظر آتا ہے۔

سرمایہ داری کے مبلغین انفرادیت کا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں لیکن پیداواری عمل سے بیگانہ انسان ناگزیر طورسماج سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ جس قدر معاشی بحران میں اضافہ ہوتا ہے اسی قدر نفسا نفسی اور معاشرتی پراگندگی میں بھی اضافہ ہو تا ہے۔ جس کی عکاسی سماج میں موجود ذہنی بیماریوں، گھریلو تشدد، منشیات کے استعمال، جنسی جنون، تنہائی اور خود کشیوں کی شرح میں مسلسل اضافے سے ہوتی ہے۔

معاشرتی بگاڑ، ثقافتی گراوٹ اور جرائم کی بنیادی وجہ مروجہ نظام کی بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی میں ناکامی ہے۔ بنیادی ضروریات کا مطلب محض روٹی پانی بھی نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ آج تک کی نسل انسان کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں جو سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی پائی اس کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر سہولت و ضرورت پر انسانوں کا مشترکہ حق ہے۔ جس میں جدید سائنسی علوم کی تعلیم، صحت بخش خوراک، موسمی اعتبار سے ٹھنڈی یا گرم اور مناسب رہائش، باعزت روزگار، انفارمیشن ٹیکنالوجی کا آزادانہ استعمال، بولنے کی آزادی وغیرہ سب شامل ہیں۔

مروجہ سماجی ڈھانچوں میں جنسی ضروریات کی تسکین بھی وسائل کی متقاضی ہے جو ہر کسی کو میسر نہیں ہیں۔ ان ضروریات سے محرومی اور معاشی اونچ نیچ جہاں ہر طرح کے سماج دشمن رویوں کو جنم دیتی ہے وہاں وحشیانہ حد تک بیمار لوگ دل دہلا دینے والے جرائم کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔

آج تک انسانی تاریخ میں جو ان گنت عصمتیں تار تار ہوئیں‘ جن بے شمار معصوموں کا بچپن ان سے چھین لیا گیا‘ اس کا انتقام آج کی نوجوان نسل کو لینا ہو گا۔ انہیں ان مادی وجوہات کا خاتمہ کرنا ہو گا جو انسانوں کو اس نہج تک لے جاتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انہیں سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی ہر قدر‘ ہر ادارے کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

Awais Qarni
Website | + posts

اویس قرنی ’ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ‘ کے مرکزی آرگنائزر ہیں اور ملک بھر میں طلبہ کو انقلابی نظریات پہ منظم اور متحرک کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔