فاروق سلہریا
11 ستمبر کو بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر ایک فیچر شائع ہوا جس کا لب لباب تھا کہ پاکستان میں لوگوں کے عقیدے کی وجہ سے زیادہ کرونا نہیں پھیلا۔
فیچر دو افراد کے گرد گھومتا ہے۔ ایک تو نواز خان ہیں، جن کے والد عمرہ کرنے گئے اور سعودی عرب سے یہ بیماری لے کر آئے مگر وفات پا گئے۔ دوسرا کردار گل زہرہ رضوی ہیں جو محرم کی مجالس میں رضاکار ہیں۔ فیچر نگار شمائلہ جعفری ہمیں فیچر کے آخر میں بتاتی ہیں:
”نواز خان اور گل زہرہ کی طرح پاکستان میں ایک بڑی اکثریت کا ماننا ہے کہ وبا کے دوران مذہب ان کے لیے مضبوطی کا باعث ہے اور اس بحران میں مذہبی اجتماعات اور عبادات پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ لیکن دنیا کے لیے حیران کن یہ امر بھی ہے کہ لوگوں کی لاپرواہی اور حکومت کی نرمی کے باوجود پاکستان میں کورونا کا پھیلاو کافی محدود رہا۔ دنیا یہ پتا لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ ابھی تک اس کا کوئی ٹھوس سائنسی جواز تلاش نہیں کیا جا سکا اور وبا کی نئی لہر کے بادل بھی افق پر موجود ہیں لیکن پاکستان کے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ عقیدے اور دعا کی طاقت ہے جس نے پاکستان کو کورونا سے نسبتاً محفوظ رکھا ہے“۔
بی بی سی اردو سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ منطقی، سائنسی اور تحقیقی سوچ کو پروان چڑھائے گا۔ اس ادارے پر تو یہ خو ف بھی سوار نہیں کہ وہ پاکستان میں ہے اس لئے فوج یا مولوی حضرات بارے کھل کر بات نہیں کر سکتا۔ اس سے بھی اہم یہ بات کہ انگریزی زبان میں اگر بی بی سی نے اس قسم کا فیچر جاری کیا ہوتا تو اب تک کئی لوگ احتجاج کر چکے ہوتے۔ سچ تو یہ ہے کہ بی بی سی اردو جیسے اداروں پر ایک زیادہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی منطقی اور سائنسی انداز میں ذہن سازی کریں۔
کرونا کی وجہ سے ایران اور سعودی عرب نے مقدس ترین مذہبی مقامات بند کرا دئیے ہیں۔ شمائلہ جعفری نے ہمیں اس فیچر میں یہ نہیں بتایا کہ وہاں عقیدہ کیوں کام نہیں آیا؟ ان کے اپنے فیچر میں ایک کردار، عمرے سے واپسی پر کرونا سے ہلاک ہو جاتا ہے مگر انہیں اس تضاد کی بھی پروا نہیں (جس کہانی میں تضاد ہو، وہ ایک ناکام بیانیہ ہوتی ہے۔ کم از کم مدیر بی بی سی نے ہی کوئی توجہ دی ہوتی)۔
فیچر نگار شمائلہ جعفری کے دفاع میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے تو صرف رپورٹ کیا ہے کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔
جواب میں ہم پوچھیں گے: کیا دو لوگوں کی بنیاد پر بائیس کروڑ افراد کی ترجمانی کی جا سکتی ہے؟
اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ اکثریت کی یہی رائے ہو (جس کا بی بی سی کے پاس کوئی ثبوت نہیں) پھر بھی دو نقاط اہم ہیں۔ ایک یہ کہ سائنسی سوچ رکھنے والے اس فیچر کے اختتامئے سے متفق نہیں۔ دوم، کرونا ایک سائنسی اور طبی مسئلہ ہے۔ اس سوال پر ماہرین کی رائے اہم ہے نہ کہ عمومی سوچ رکھنے والے لوگوں کی۔ بی بی سی کا فرض ہے کہ ماہرانہ رائے پیش کر کے اپنا صحافتی فریضہ سر انجام دے نہ کہ پاکستانی نیوز چینلز کی طرح رجعتی سوچ کو پروان چڑھائے۔
اب ذرا یہ جملہ دیکھئے: ”لیکن دنیا کے لیے حیران ْکن یہ امر بھی ہے کہ لوگوں کی لاپرواہی اور حکومت کی نرمی کے باوجود پاکستان میں کورونا کا پھیلاو کافی محدود رہا۔ دنیا یہ پتا لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟“۔
دنیا سے کیا مراد ہے؟ سات ارب لوگ؟ ماہرین؟ اقوام متحدہ؟
اموات تو افغانستان میں بھی بہت کم ہوئی ہیں۔ افریقہ میں بھی بہت کم ہوئی ہیں۔ چین اور یورپ نے اموات پر قابو پا لیا ہے۔ ہر جگہ کی اپنی حقیقتیں ہیں۔ ماہرین اور محقق تحقیق کر رہے ہیں۔ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماہرین اور سائنس دان تجسس کا شکار ضرور ہوتے ہیں، شمائلہ جعفری کی طرح ”حیران“ نہیں۔ ایک اچھا فیچر نگار ایک عالمی شہرت رکھنے والے ادارے پر ایسی جنرلائزیشن کرے گا تو صحافت شرمندہ ہی ہو سکتی ہے۔
اب ذرا یہ جملہ ملاحظہ فرمائیں: ”ابھی تک اس کا کوئی ٹھوس سائنسی جواز تلاش نہیں کیا جا سکا اور وبا کی نئی لہر کے بادل بھی افق پر موجود ہیں لیکن پاکستان کے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ عقیدے اور دعا کی طاقت ہے جس نے پاکستان کو کورونا سے نسبتاً محفوظ رکھا ہے“۔
کیا کوئی تحقیق ہوئی جس سے کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا؟ ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا۔
جہاں تک ہمیں علم ہے، اس بارے کوئی جامع تحقیق ابھی ہوئی ہی نہیں۔ ایک سیمپل کراچی کی آغا خان یونیورسٹی نے جاری کیا ہے۔ جب تک کوئی جامع تحقیق نہ ہو کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ مزید یہ کہ تحقیق کی عدم موجودگی میں، منطقی طریقہ کار ہوتا ہے موازنہ کرنا۔ اس فیچر میں دوسرے مسلم ممالک سے کوئی موازنہ نہیں کیا گیا کہ کیوں کسی مسلم ملک میں کرونا سے زیادہ تباہی ہوئی اور کسی میں کم۔
ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ فیچر نگار نے مذہبی جوش میں آکر فیچر لکھا۔ بی بی سی اردو نے بھی ادارتی معیار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جاری کر دیا۔ تمام تر مواقع اور آزادی کے باوجود ایسی صحافت پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔