ڈاکٹر مظہر عباس
زرعی معاشرے میں زرعی اراضی کی ملکیت اور قبضہ لوگوں پر وسیع اور حاوی اختیارکا ذریعہ ہوتے ہیں، خاص طور پر ان لوگوں پر جو اپنی روزی روٹی کمانے کے لئے یا پھرحکومتی مشینری اور سرکاری دفاتر تک رسائی حاصل کرنے کے لئے زمین پر براہ راست انحصار کرتے ہیں۔
جن لوگوں کے پاس زمین نہیں ہوتی وہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے طبقاتی تنزلی کا شکار ہوتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ زمین محض مٹی کے ایک سادہ ٹکڑے کی بجائے ’حقوق کا گلدستہ یا حقوق کی گٹھڑی‘ ہوتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ زرعی اصلاحات کے ذریعے زمینداروں سے مزارعوں تک اراضی کی منتقلی کا مطلب ’حقوق کے گلدستے یا حقوق کی گٹھڑی‘ کی منتقلی ہوتا ہے لہٰذا، موثّر زرعی اصلاحات موجودہ زمینداروں کی طاقت اور حیثیت، زمین کی ملکیت اور قبضہ میں عدم مساوات اور معاشی، معاشرتی اور سیاسی عدم مساوات کو کم کرنے کی اہلیت کی حامل ہوتی ہیں۔
تاہم، پاکستان میں زمینداروں کی طاقت اور زمین کی ملکیت اور قبضہ میں عدم مساوات کی متعدد وجوہات، خاص طور پہ زرعی اصلاحات کی اسلامائزیشن (مطلب زرعی اصلاحات کو مذہبی رنگ دینے)، کی بنا پر کم نہیں کیا جا سکا۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی مہاجر برادری، کسانوں، شہری طبقات اور پیشہ ور افراد نے زرعی اصلاحات کے مطالبات پیش کر دئیے تھے۔ مزید برآں، مغربی پنجاب میں وزیر برائے بحالی مہاجرین، میاں افتخارالدین، نے استدلال کیا تھا کہ صوبے کے معاشرتی و معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیوں (خاص کر زرعی اراضی کی تقسیم) کے بغیر مہاجرین کی آباد کاری ناممکن تھی۔
ریاست نے ان مطالبات اور استدلال کا جواب زرعی اصلاحاتی کمیٹیاں تشکیل دے کر دیا۔ ان کمیٹیوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ زمین کے چند خاندانوں میں مرکوز ہو جانے کی وجوہات کی تحقیقات کرنے کے ساتھ ساتھ زمینداری، زمین پر میعاد قبضہ اور زمین کے انتظام سے وابستہ مسائل کے حل کے لئے سفارشات بھی تجویز کریں۔
ممتاز محمد دولتانہ کی سربراہی میں تشکیل دی گئی مسلم لیگ کی زرعی اصلاحات کی کمیٹی اور زاہد حسین کی سربراہی میں پاکستان پلاننگ بورڈ نے تجویز پیش کی کہ ملکیت اراضی کی بالائی حد بندی اس طرح کی جائے کہ کوئی بھی فرد واحد 150 ایکڑ سیراب شدہ اراضی، یا 300 ایکڑ نیم سیرابی اراضی، یا پھر یہ کہ 450 ایکڑ غیر سیراب شدہ اراضی سے زیادہ زمین کی ملکیت کا مستحمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کمیٹیوں نے مزارعوں کی بہتری لئے اصلاحات اور دوسری زرعی اصلاحات کی تجاویز بھی پیش کیں۔
تاہم ان مجوزہ زرعی اصلاحات کو ایک طرف زمیندار اور جاگیردار اشرافیہ جبکہ دوسری طرف مذہبی علما کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض حلقوں کا یہ ماننا ہے کہ با اثر زمینداروں اور جاگیرداروں نے زرعی اصلاحات کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے درکار مذہبی مددکے لئے مذہبی رہنماؤں کو بھی متحرک کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں موجودمذہبی فرقوں، جن میں بنیاد پرست مذہبی و سیاسی جماعت ’جماعت اسلامی‘ بھی شامل تھی، نے اسلام میں نجی طور (انفرادی سطح) پہ ملکیت اراضی کے تقدس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے زمیندار اور جاگیردار اشرافیہ کی حمایت میں مدد اکٹھی کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی علما نے عام لوگوں، خاص طور پر کسانوں، کی بجائے زمیندار اور جاگیردار اشرافیہ کا ساتھ کیوں دیا؟
اس سوال کا جواب غالباً ایسے دیا جا سکتا ہے: اؤل یہ کہ، مذہبی رہنما، جن کا مقصد پاکستان کی نوزائیدہ ریاست میں اسلام کا ہراؤل دستہ اورسرغنہ بننا تھا، نے عوام کو احساس دلانے اور حکمران طبقے کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ پاکستان اسلام کے نام پر تشکیل دیا گیا تھا، لہٰذا پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کیا جانا چاہئے تھا۔ دوسرا یہ کہ، کچھ مذہبی رہنما خود بھی جاگیردار تھے (جیسا کہ جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ، مرزا بشیرالدین محمود احمد)۔ تیسرا یہ کہ، جاگیردار اور زمیندار اشرافیہ نے کئی مذہبی رہنماؤں کو منافع بخش پیش کشیں کیں تاکہ وہ زمینی اصلاحات کے خلاف بولیں اور انکو غیر اسلامی قرار دلوانے میں انکی مدد کریں۔
مثال کے طور پر، سندھ حکومت کے ایک وزیر (جو کہ زمیندار اشرافیہ میں سے تھا) نے مذہبی رہنماؤں کو خفیہ منافع بخش پیش کش کی اور اس کے بدلے میں محمد مسعود (جو کہ سندھ ہاری کمیٹی کا ممبر تھا اور کھدرپوش کے نام سے جانا جاتا تھا) کے خلاف کامیابی کے ساتھ ایک فتوی حاصل کیا (اس فتوی میں زرعی اصلاحات کو غیر اسلامی اور محمد مسعود کھدرپوش کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا)۔
مذہبی رہنماؤں نے زمینی اصلاحات کے محرکوں، حامیوں اور وکیلوں پہ الزامات لگاتے ہوئے ان کو کمیونسٹ (غیر مسلم) اور ان کی تجاویز کو غیر اسلامی قرار دے دیا۔ انہوں نے اسلام میں نجی طور (انفرادی سطح) پہ ملکیت اراضی کے تقدس کی اہمیت کویہ دلیل دے کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ فرد واحد زیادہ سے زیادہ (غیر معینہ) حد تک زمین کا مالک ہو سکتا ہے اور نہ ہی ریاست کو اور نہ ہی کسی فرد واحد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ زمین کی ملکیت پہ کسی بھی قسم کی حد بندی کا تعین کر سکے۔
اس مقصد کے لئے انہوں نے نہ صرف محض بیانات اور فتوے دئیے بلکہ مختلف سطحوں پہ پمفلٹ اور کتابیں بھی شائع کیں۔ مثال کے طور پر، خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود احمد (’جماعت احمدیہ‘کے دوسرے خلیفہ)، سید ابو الاعلی مودودی (جماعت اسلامی کے بانی اور سربراہ) اور غلام احمد پرویز (بانی تحریک طلوع اسلام) نے انفرادی سطح پہ ملکیت جائیداد کے تقدس کو اجاگر کرتے ہوئے زرعی اصلاحات کی تجاویز کے خلاف مزاحمت کرنے کے لئے اور انکو غیر اسلامی قرار دینے کے لئے 1950ء کے وسط میں کتابیں لکھیں۔
اگر زمیندار اور جاگیردار ریاست اور عوام کے مابین مصالحت (بنیادی طور پہ تعلق استوار کرنے اور بحال کرنے) کا ذریعہ تھے تو مذہبی علما عوام اور خدا کے مابین۔ اپنی مصالحتی حیثیت اور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مذہبی علما نے ایک نمایاں مذہبی دلیل کی افزائش اور پھیلاؤ کیا: وہ یہ کہ، یہ خدا کی مرضی ہے کہ کچھ غریب مزارعے جبکہ دوسرے امیر زمینداراور جاگیردار کی حیثیت سے پیدا ہوتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی پروپیگنڈا کیا کہ موجودہ نظام کے خلاف کوئی بھی احتجاج یا مزاحمت حکم الٰہی کی خلاف ورزی ہو گی۔ یہ مذہبی علما ہی تھے جنہوں نے دین الہیات کو بنیاد بنا کر دو رویوں کی شرائط طے کیں: ایک یہ کہ زمینی اصلاحات اسلام مخالف تھیں اور دوسرا یہ کہ غیر زمیندار مزارعوں کے پاس زمین والے اشرافیہ کے خلاف بغاوت کا کوئی جواز نہیں۔
نہ صرف مذہبی علما، بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے بھی زمینی اصلاحات کو اسلامائز (مذہبی رنگ دیا) کیا جو بالآخر زمیندار طبقے کے لئے مفید ثابت ہوئیں۔ مثال کے طور پر قزلباش وقف بمقابلہ چیف لینڈ کمشنر پنجاب کیس میں شریعت اپیلٹ بنچ نے 10 اگست 1989ء کو زرعی اصلاحات کو اسلامی اصولوں کیخلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔
تاہم، یہ فیصلہ متفقہ نہیں تھا بلکہ اس کیس کا فیصلہ کرنے والے دو گروہوں میں تقسیم تھے۔ دونوں گروہوں نے متضاد نتائج اخذ کئے، قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا اور جائیداد کی ملکیت کا تعین قانونی یا عقلی تقاضوں کی بجائے مذہبی اورنظریاتی بنیادوں پہ کیا۔ اس فیصلے نے ایک طرف ہزاروں غریب کسانوں، جو کہ زمین کی اصلاحات کے نتیجے میں مستفید ہوئے تھے، کو محروم کر دیا جبکہ دوسری طرف پاکستان میں مستقبل میں ہونے والی زرعی اصلاحات کے دروازے بھی بند کر دیئے۔
اس فیصلے کے برخلاف، جائیداد کی ملکیت کا اسلامی تصور تقسیم کی اس روح پر مبنی ہے جو زکوٰۃ، بیت المال اور وقف کے اداروں کے ساتھ ساتھ وراثت کے اسلامی قوانین سے عیاں ہوتا ہے۔ جائیداد کی ملکیت کے اسلامی تصور (جو کہ تقسیم کی روح پہ مبنی ہے) کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس فیصلے کے تنقیدی جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ شریعت اپیلٹ بنچ کے لئے درج ذیل راستے کھلے ہوئے تھے:
پہلا یہ کہ، اس اوقاف کی جائیداد کے تناظر میں اس درخواست پرنظرثانی کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا جا سکتا تھا کہ وقف ایک شخص نہیں بلکہ مذہبی جائیداد ہے اور وقف کی جائیداد پرملکیت کی حد نہیں لگائی جا سکتی۔
دوسرا یہ کہ، یہ ہدایت بھی دی جا سکتی تھی کہ حکومت مقررہ حد سے زیادہ حصول شدہ اراضی کا معاوضہ ادا کرے کیونکہ معاوضہ کے بغیر اراضی کا حصول غیر اسلامی ہے۔
اور تیسرا یہ کہ، یہ دلیل دی جا سکتی تھی کہ اگر قزلباش وقف یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ اس نے یہ جائیداد عوامی فلاح و بہبود کے لئے رکھی ہوئی تھی تو ریاست نے بھی عوامی مفاد میں ہی زمین حاصل کی تھی۔
اگر ان تجاویز (یا ان میں سے کسی ایک بھی تجویز) کوگردانا جاتا تو پاکستان میں زمینداری کی تقدیر مختلف ہوتی۔