پاکستان

پشاور جلسہ کی ناکامی: پی ڈی ایم بیانیہ کہاں کھڑا ہے…؟

حارث قدیر

پاکستان کی گیارہ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) دو روز قبل پشاور میں منعقدہ جلسہ کیلئے بڑے پیمانے پر مجمع اکٹھا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تمام تر تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کے مطابق پشاور جلسہ میں دس ہزار سے بھی کم کارکنوں نے شرکت کی۔ کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس جلسہ سے زیادہ مجمع مولانا فضل الرحمان کی اپنی جماعت (جے یو آئی ف) کے جلسوں میں جمع ہوتا رہا ہے۔

جلسے کی ناکامی کی وجوہات سے متعلق بھی مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ ایک بڑی وجہ جلسہ کی میزبانی پر جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی کے مابین ایک چپقلش کو قرار دیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے دونوں جماعتیں بڑے پیمانے پر کارکنوں اور ہمدردوں کو پنڈال میں لانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔

دوسری بڑی وجہ پی ٹی ایم (پختون تحفظ موومنٹ) کے قائدین کو جلسہ میں مدعو نہ کئے جانے کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگرپختون تحفظ موومنٹ کی قیادت کو بھی جلسہ میں مدعو کیا جاتا تو پختون علاقوں سے جلسے میں زیادہ تعداد میں لوگوں کی شمولیت متوقع تھی۔

جلسہ کی ناکامی کی تیسری وجہ حکومت کی طرف سے کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسوں کی وجہ سے جلسہ کی اجازت نہ ملنا قرار دی جا رہی ہے۔ پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے حکومت کی طرف سے جلسہ گاہ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کئے جانے اور موبائل فون سروس بند کئے جانے کو بھی مجمع کی کمی کی ایک بڑی وجہ قرار دیا ہے۔

پاکستان جمہوری تحریک کے ابتدائی جلسوں میں بڑی تعداد میں مجمع جمع ہونے کی وجہ سے حکومت کو مشکلات کا سامنا تھا لیکن اب پشاور جلسہ کی ناکامی نے پاکستان جمہوری تحریک کے رہنماؤں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کی نمائندہ اپوزیشن جماعتوں اور حزب اقتدارمیں صرف ایک ہی قدر مختلف ہے کہ حزب اقتدار کو فوجی اشرافیہ کے طاقتور حصے کی حمایت حاصل ہے اور اسی حمایت کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو ایک مخصوص وقت تک ہی پذیرائی مل سکتی ہے، یا پھر فوجی اشرافیہ کی جانب سے حزب اقتدار بالخصوص تحریک انصاف کی پشت پناہی کرنے اور سیاست میں مداخلت سے باز و ممنوع رہنے کا بیانیہ بھی اس کی مادی بنیادوں کو زیر بحث لائے بغیر پذیرائی حاصل نہیں کر سکتا۔ اقتدار میں حصہ داری نہ دیئے جانے کے علاوہ معاشی پالیسیوں سمیت دیگر مسائل کے حوالے سے پی ڈی ایم کے پاس عوام کے سامنے رکھنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔

پی ڈی ایم قیادت ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کر سکی کہ گزشتہ تہتر سال میں آمریت اور جمہوریت کے اس کھلواڑ میں پسنے والے عام عوام کو مستقبل میں کس طرح اس کھیل سے نجات دلوائی جا سکتی ہے۔ موجودہ وقت میں محض اتنی تبدیلی آئی ہے کہ براہ راست آمریت کی بجائے اسے جمہوریت کے لبادے میں لپیٹ کر نافذ کیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں پاکستان جیسے پسماندہ سماج میں سرمایہ دارانہ جمہوریت اور قومی جمہوری انقلاب کے فرائض کو پورا کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

وقتی طورپر اگر پی ڈی ایم کے جلسوں میں پنڈال بھرے ہوئے ہوں، یا پنڈال خالی ہونا شروع ہو جائیں، دونوں صورتوں میں ایک واضح انقلابی پروگرام کے بغیر عوامی دکھوں کا مداوا ممکن نہیں ہے۔ پی ڈی ایم قیادت کا محتاط انداز بیاں اورہر ایک بات کی بار بار وضاحت دراصل اس خوف کی بھی غمازی کر رہی ہے کہ مصنوعی بنیادوں پر شروع کی جانیوالی تحریک ان کے کنٹرول میں ہی رہے کیونکہ تحریکیں شروع تو اپنی مرضی سے کی جاتی ہیں لیکن ضروری نہیں ہوتا کہ انکا نتیجہ بھی وہی نکلے جس کیلئے ان تحریکوں کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں۔ تحریکوں اور احتجاج کا سلسلہ سماج کی نچلی سطحوں میں پنپنے والے لاوے کو بھڑکنے کا راستہ بھی فراہم کر سکتا ہے، جو حکومت اور اس نظام کو ہی نہیں اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جائیگا۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔