امان اللہ کاکڑ
دو سال پہلے، 2 فروری کو صوبہ بلوچستان کے ضلع لورالائی میں دلخراش واقعات کے خلاف احتجاج میں شرکت کرنے کے بعد شام کے وقت تحصیل روڈ کے قریب پروفیسر ارمان لونی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے اہم رکن پروفیسر ارمان لونی اس قاتلانہ حملے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ارمان لونی اپنی سیاسی جدوجہد میں ایک فعال اور مخلص کارکن ثابت ہوئے۔ وہ اپنے مقصد کیلئے ہر قسم کی قربانیاں دیتے رہے۔ قومی آزادی کی جدوجہد کرتے ہوئے پروفیسر ارمان لونی، اپنے وطن کے وسائل پر اختیار، پشتون سر زمین پر امن اور پشتونوں میں شعور، علم اور محبت عام کرنے کیلئے لڑتے تھے۔
وہ صرف پشتونوں کی نہیں تمام محکوم و مظلوم طبقوں کی آزادی، خود مختاری اور حقوق کی بات کرتے تھے۔ پروفیسر ارمان لونی اس سوچ کے مالک تھے کہ نہ کوئی ہمارا استحصال کرے گا نہ ہمارے وسائل لوٹے گا اور نہ ہی ہمیں غلام کے طور پر رکھے گا نہ ہم کسی کے ساتھ ایسا کریں گے۔ سب برابر ہیں نہ کوئی کسی کا غلام ہوگا نہ کوئی کسی کا آقا ہو گا۔
پروفیسر ارمان لونی سیاست کی طرح ادب کی دنیا میں ایک فعال اور باکردار شاعر تھے۔ وہ مختلف مشاعروں، سیمیناروں اور پروگراموں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ ارمان لونی کی شاعری میں انقلابی اور رومانی رنگ نمایاں ہے۔ پشتو ادب پر ارمان لونی گہری نظر رکھتے تھے۔ پشتو ادب کے مختلف مکتبہ فکر کے شعرا پر تفصیلی گفتگو کرنے کے اہل تھے اور پشتو ادب کیلئے انکی خدمات بھی نمایاں ہیں۔
ارمان لونی پیشے کے لحاظ سے استاد (پروفیسر) تھے۔ پوسٹ گریجویٹ کالج سریاب روڈ کوئٹہ میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ وہ پشتو مضمون پڑھاتے بھی اور پڑھتے بھی تھے۔ وہ ایم فل پشتو کے طالب علم تھے۔ انکی ایم فل ریسرچ جاری تھی مگر مکمل نہ ہو سکی۔
پروفیسر ارمان لونی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں شدید معاشی مسائل کا سامنا کیا۔ پڑھائی، سیاست، ادب اور مزدوری بیک وقت ایک مشکل کام ہوتا ہے مگر پروفیسر ارمان لونی تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے آگے بڑھے۔
پروفیسر ارمان لونی گفتار کے نہیں کردار کے ترقی پسند تھے۔ وہ عورت کو مرد سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ وہ سیاست، ادب، کھیل اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں حصہ لینا عورت کا حق سمجھتے تھے۔ عورت کو گھر میں قید کرنے کے خلاف تھے۔ ارمان لونی ان تمام روایات کے سخت خلاف تھے جو عورت کے دوہرے تہرے استحصال کا باعث ہیں اور یہ اس خطے میں عام ہیں جیسا کہ لڑکیوں کو بدی میں دینا، جہیز لینا اور لڑکیوں کو تعلیم سے روکنا۔
ارمان لونی دوستی میں بھی خوش مزاج اور ہنس مکھ شخص تھے۔ وہ کھیل کے میدانوں سے لیکر میوزک پروگراموں تک اور ہاسٹلوں سے لیکر ہوٹلوں تک ہر محفل میں حصہ لیتے تھے۔
ان کا قتل اس علاقے کی تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ہے۔ اس بڑے سانحہ نے بہت بڑے احتجاج کوجنم دیا۔ انکی نماز جنازہ بلوچستان کی تاریخی نماز جنازہ تھی۔ وہ جدوجہد کی ایک ایک علامت ہیں جو نئی نسل کو انسپائر کرتی رہے گی۔