خبریں/تبصرے

پاکستانی جرنیل، جاگیردار، سرمایہ دار عوام کو 17.4 ارب ڈالر میں پڑتے ہیں

لاہور (نامہ نگار) اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار، سیاستدان اور ملک کی طاقتور فوج سمیت پاکستان کی اشرافیائی گروہوں کو دی جانیوالی معاشی مراعات ایک اندازے کے مطابق 17.4 ارب ڈالر یا ملکی معیشت کا 6 فیصد سے زیادہ ہیں۔

الجزیرہ کے مطابق گزشتہ ہفتے جاری ہونیوالی اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی پاکستان کیلئے نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ (این ایچ ڈی آر) 22 کروڑ آبادی پر مشتمل جنوبی ایشیائی ملک میں عدم مساوات کے معاملات پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ طاقتور گروہ اپنے منصفانہ حصے سے زیادہ قبضہ کرنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں، لوگ معاشرتی خصوصیات پر مبنی تعصب کے ذریعے سخت امتیازی سلوک کو برقرار رکھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں عدم مساوات کو دور کرنے میں پالیسیاں اکثر ناکام رہتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کارپوریٹ سیکٹر نے 4.7 ارب ڈالر کی مراعات حاصل کیں، جو ٹیکسوں میں چھوٹ، سستی ان پٹ قیمتوں، اعلیٰ پیداواری قیمتوں یا زمین اور خدمات تک ترجیحی رسائی کی شکل میں حاصل کی گئیں۔

دوسرے اور تیسرے نمبر پر مراعات یافتہ افراد ملک کے امیر ترین 1 فیصد قرار دیئے گئے ہیں جو مجموعی طور پر ملک کی مجموعی آمدنی کا 9 فیصد حاصل کرتے ہیں اور جاگیردار جو آبادی کا محض 1.1 فیصد ہیں لیکن ملکی قابل کاشت اراضی کے 22 فیصد کے مالک ہیں۔

پاکستانی پارلیمنٹ میں دونوں طبقوں کی زبردست نمائندگی ہے، بیشتر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس ملک کی فوج، جس نے 74 سالہ تاریخ کا نصف حصہ براہ راست ملک پر حکمرانی کی ہے، کو بنیادی طور پر زمین، سرمائے اور بنیادی ڈھانچے تک ترجیحی رسائی کے ساتھ ساتھ ٹیکس چھوٹ کی شکل میں 1.7 ارب ڈالر کی مراعات حاصل ہوئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستانی فوج ملک کی سب سے بڑی رئیل اسٹیٹ ڈویلپر اور منیجر ہونے کے علاوہ عوامی منصوبوں کی تعمیر میں وسیع پیمانے پر ملوث اور پاکستان میں کاروباری اداروں کی سب سے بڑی جماعت بھی ہے۔

رپورٹ کے مطابق امیر ترین ایک فیصد کا 2018-19ء میں ملک کی 314.4 ارب ڈالر کی مجموعی آمدنی میں سے 9 فیصد حصہ حاصل کیا جبکہ غریب ترین 1 فیصد صرف 0.15 فیصد ہی حاصل کر سکے۔ مجموعی طور پر 20 فیصد امیر ترین افراد پاکستان کی قومی آمدن کا 49.6 فیصد حصہ حاصل کرتے ہیں جبکہ غریب ترین 20 فیصد صرف 7 فیصد حاصل کرتے ہیں۔

یو این ڈی پی کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ متوسط آمدن والے افراد 2009ء میں آبادی کا 42 فیصد سے کم ہو کر 2019ء میں 36 فیصد رہ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام کو عوامی اخراجات سے بھی یکساں فائدہ نہیں ملتا، غریب ترین آبادی کیلئے عوامی اخراجات سے مجموعی حصہ 14.2 فیصد ہے جبکہ امیر ترین آبادی کیلئے 37.2 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کی بنیاد پر جنوبی ایشا میں پاکستان افغانستان کے بعد دوسرا بدترین ملک ہے۔ یو این ڈی پی نے ایسی پالیسیوں کی سفارش کی ہے جو مراعات کو ختم کرنے اور ان نتائج پر اخراجات کرنے پر توجہ دیتی ہیں تاکہ ملک کے غریبوں کیلئے ساختی معاونت فراہم کی جا سکے اور تعلیم اور صحت کی بہتری کے ساتھ ساتھ ان کو مزید معاشی مواقع فراہم کئے جا سکیں۔

یو این ڈی پی کی سیکرٹری جنرل وگنا راجہ کا کہنا ہے کہ ”ورلڈ اکنامک فورم کے عالمی جینڈر گیپ انڈیکس میں 156 ممالک میں سے پاکستان کا 153 واں نمبر ہے۔ اس میں پرائمری سکول کی عمر کی 32 فیصد لڑکیاں سکول سے باہر ہیں۔ پوری دنیا میں جس سرمایہ کاری سے سب سے زیادہ منافع آتا ہے وہ تمام بچوں کو تعلیم دلانا ہے اور انہیں سکول بھیجنا ہے۔ لیکن پاکستان کے سکولوں اور ملازمت کی جگہوں سے خواتین لاپتہ ہیں۔“

Roznama Jeddojehad
+ posts