خبریں/تبصرے

فواد چوہدری! کیا آر ایس ایف نے اسائلم کیلئے پاکستان کو 142 ویں درجے پر رکھا ہے؟

فاروق سلہریا

جب مختاراں مائی کا افسوسناک واقعہ سامنے آیا تو جنرل مشرف عنان اقتدار سنبھالے ہوئے تھے۔ پاکستان میں خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک کے حوالے سے جب کسی غیر ملکی صحافی نے سوال کیا اور مختاراں مائی کا حوالہ دیا تو جنرل مشرف کا جواب تھا کہ خواتین اسائلم (سیاسی پناہ) لینے کے لئے خود کو ریپ کا شکار بنا کر پیش کرتی ہیں۔

اتفاق سے مختاراں مائی آج بھی پاکستان میں ہیں اور جنرل مشرف ملک کے سب سے معروف بھگوڑے اور عدالتی مفرور ہیں۔

اپنے سیاسی کولمبس جنرل مشرف کی طرح فواد چوہدری نے بھی یہی حربہ صحافیوں کے خلاف استعمال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافی دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ لینے کے لئے فوج پر الزام لگاتے ہیں۔ آئیے ذرا دیکھتے ہیں اس الزام میں کتنی حقیقت ہے۔

صحافیوں پر تشدد کا شرمناک ترین واقعہ تھا ضیا آمریت کے دوران چار ترقی پسند صحافیوں کو کوڑوں کی سزا۔ مئی 1978ء میں لاہور کی ایک فوجی عدالت نے ناصر زیدی، مسعود اللہ خان، اقبال جعفری اور خاور نعیم ہاشمی کو کوڑوں کی سزا دی۔ میڈیکل بنیادوں پر مسعود اللہ خان صاحب کو تو کوڑے نہیں مارے گئے لیکن باقی تین بہادر صحافیوں کو ٹکٹکی کے ساتھ باندھ کر کوڑے مارے گئے۔ یہی نہیں، اگلے چند سال خاص کر ناصر زیدی، یہ صحافی کبھی جیل میں تو کبھی بے روزگار۔ ناصر زیدی کی جیل میں برے سلوک کی وجہ سے ایک آنکھ چلی گئی اور دمے کا مرض بھی لاحق ہو گیا۔ علاج کے لئے جب انہیں ہسپتال لایا گیا تو بھی انکی ہتھکڑی نہیں کھولی گئی۔ وہ ہسپتال کے بیڈ پر بھی ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ ہسپتال میں ان کی ہتھکڑی لگی تصویر عالمی میڈیا کی زینت بنی…ان چاروں نے جبر اور آمریت کا مقابلہ کیا مگر اسائلم نہیں لیا۔ وہ آج بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں مگر ضیا الحق کی اولاد ملک میں نہیں رہتی۔

ضیا دور میں ہفت روزہ’وئیو پوائنٹ‘مزاحمت کی علامت تھا۔ ایک بار یوں ہوا کہ وئیوپوائنٹ کا سارا عملہ گرفتار ہو گیا۔ ان میں وئیو پوائنٹ کے بانی مدیر مظہر علی خان اور آئی اے رحمن بھی شامل تھے۔ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دونوں نے ملک نہیں چھوڑا۔

ضیا الحق کے خلاف پاکستان ٹیلی ویژن کے عملے نے ہڑتال کی۔ اس جرم میں شاہد محمود ندیم کو کوڑوں کی سزا سنائی گئی جبکہ ان کے ساتھیوں کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا۔ گو عالمی دباؤ پر کوڑوں کی سزا تو منسوخ ہو گئی مگر برطرف کئے گئے ملازمین اس وقت بحال نہیں ہوئے جب تک ضیا آمریت کا خاتمہ نہیں ہوا۔ اس آمریت کے دوران شاہد محمود ندیم جلا وطن ضرور ہوئے مگر ضیا آمریت کا خاتمہ ہوتے ہی وطن واپس آ گئے۔

پرانی باتیں چھوڑیں، عمر چیمہ پر تشدد، حامد میر پر قاتلانہ حملہ، ابسار عالم پر قاتلانہ حملہ اور اب اسد طور کے گھر میں گھس کر تشدد…کوئی بھی ملک چھوڑ کر نہیں گیا۔

اور ہاں سیاسی پناہ لینا کوئی طعنے کی نہیں، سیاسی کارکنوں کے لئے اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ انقلابیوں کی تاریخ جلاوطنیوں سے بھری پڑی ہے۔ سیاسی جلا وطنی نہیں، بیرون ملک جائیدادیں بنانا اور جزیرے خریدنا معیوب حرکت ہے۔

خیر اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ ففتھ جنریشن وارفیئر چل رہا ہے اور ’اداروں ‘ کو بدنام کرنے کے لئے کچھ صحافی اسرائیل، ہندوستان، افغانستان اور پتہ نہیں کس کس ادارے سے پیسے لے رہے ہیں، تواس بات کا کیا جواب ہے کہ رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز (آر ایس ایف) ہر سال آزادی صحافت کی جو عالمی رینکنگ جاری کرتا ہے اس میں پاکستان کا نمبر 140 کے قریب قریب ہوتا ہے۔ جنگ کے مارے افغانستان کی رینکنگ بھی پاکستان سے بہتر ہے۔ کیا آر ایس ایف بھی اسائلم لینے کے لئے ایسا کر رہا ہے؟

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔