فاروق سلہریا
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مفتی عزیز الرحمن کے ویڈیو سکینڈل نے مدرسہ سسٹم کے گھناؤنے پن کو کئی سطح پر بے نقاب کر دیا ہے۔ گو جو پہلوبھی بے نقاب ہوا ہے، پہلے سے سب کے علم میں تھا لیکن جو باتیں ناقدین کیا کرتے تھے، اب ان کی تصدیق مدرسہ سسٹم کے کرتا دھرتا کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے بات کرنے کی ضرورت ہے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی۔
(۱) مدرسوں میں جنسی و جسمانی تشدد
جنسی تشدد سے بھی پہلے مدرسہ سسٹم میں بچوں پر ہونے والے جسمانی تشدد پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ جسمانی تشدد عمومی طور پر جنسی تشدد سے پہلے شروع ہوتا ہے۔ جسمانی تشدد کی شکل میں بچے کو نفسیاتی طور پر اتنا کمزور بنا دیا جاتا ہے کہ وہ جنسی تشدد کی’مزاحمت‘بھی نہیں کر پاتا (کہ والدین کو بتائے یا دوسروں کے نوٹس میں لائے)۔ ایک طرح سے جنسی تشدد جسمانی تشدد کی ایکسٹنشن (Extension) بن جاتا ہے۔
مولوی حضرات کے طرفدار فوری طور پر نقطہ اٹھائیں گے کہ بچوں کے ساتھ جسمانی و جنسی تشدد عام سکولوں حتیٰ کہ گھر کے اندر بھی ہوتا ہے۔ یہ اعتراض بالکل درست ہو گا لیکن مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن میں رکھنا ہو گا:
ا۔ جتنا غیر محفوظ ایک بچہ مدرسے کے ماحول میں ہوتا ہے (عمومی طور پر وہ رہتا بھی مدرسے میں ہی ہے) اتنا سکول یا گھر کے ماحول میں نہیں ہوتا۔
۲۔ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات لاہور کے ایسے سکولوں میں بھی پیش آئے جو بظاہر بہت محفوظ سمجھے جاتے ہیں لیکن وہاں ایسے واقعات پر پردہ نہیں ڈالا جاتا۔ وہاں کے معاملات میڈیا بلا خوف رپورٹ کر سکتا ہے۔ ادہر مدرسے بارے تحقیق کرنا ہی ممکن نہیں رہ چکا۔ اگر کوئی تحقیق کر بھی لے گا تو اپنی تحقیق کے نتائج شائع کرنے کے بعد پاکستان میں نہیں رہ سکے گا۔
۳۔ مدرسے میں جسمانی و جنسی تشدد پر پردہ ڈالنے کے لئے مدرسہ اسٹیبلشمنٹ فوری طور پر مذہب کا استحصال شروع کر دیتی ہے۔ ملک میں جس طرح کے حالات ہیں، حکومت بھی جرات نہیں کرتی کہ بھڑوں کے اس چھتے میں ہاتھ ڈالے (ویسے کسی حکومت کو کوئی فکر بھی نہیں رہی ہے کیونکہ مدرسے میں غریب کا بچہ جاتا ہے)۔ اگر سکول یا گھر کے اندر بچے کے ساتھ کسی قسم کا برا سلوک ہو تاہے تو ریاست قانونی، عملی و اخلاقی طور پر مداخلت کا حق رکھتی ہے اور یہ مذہب کا مسئلہ نہیں بنے گا۔ (ان گزارشات کی روشنی میں اشد ضروری ہے کہ مدرسے میں جسمانی و جنسی تشدد بارے نہ صرف معاشرہ بحث کرے بلکہ ریاست اپنی رِٹ قائم کرے)۔
(۲) وفاق المدارس کا شرمناک کردار
اب یہ واضح ہو چکا کہ یہ ویڈیوز لگ بھگ دو سال پرانی ہیں۔ یہ شرمناک کھیل وفاق المدارس کے نوٹس میں لایا گیا۔ مدرسہ انتظامیہ بھی باخبر تھی مگر اس گھناؤنے کھیل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ الٹا بلیک میلنگ اورریپ کا شکار ہونے والے نوجوان کو مبینہ طور پرجان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وفاق المدارس فوری طور پر کیس پولیس کو رپورٹ کرتا۔ یہ ایک سنگین نوعیت کا جرم تھا لیکن وفاق المدارس خود کو ریاست سے بالاتر سمجھتا ہے۔ پھر یہ کہ طلبہ کے ساتھ تو یہ سب مدرسوں میں ہوتا ہے کیوں تماشا لگایا جائے؟
(۳) مدرسوں کا کاروبار
مفتی عزیز الرحمن نے جو وضاحتی بیان ایک ویڈیو کی شکل میں جاری کیا، اس میں انہوں نے کہا کہ مدرسے کی انتظامیہ کو ڈر تھا کہ مفتی صاحب اور ان کے بیٹے مدرسے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اس لئے انہوں نے طالب علم کو ساتھ ملا کر یہ ’سازش‘ کی (دلچسپ بات ہے مولانا نے سازش کا الزام یہود و ہنود پر نہیں لگایا)۔ مسجدوں اور مدرسوں پر قبضے پرانی رسم ہے۔ مسجد گراں قیمت چندوں کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ مدرسہ تو مسجد سے بھی زیادہ منفعت بخش ہوتا ہے (بشکریہ پیٹرو ڈالرز)۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ مولانا کسی جھانسے میں آ گئے تو یہ بات طے ہے کہ مدرسے کے کنٹرول کی لڑائی چل رہی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ افغان جہاد اور پیٹرو ڈالرز کے بعد سیاسی ملا اور مدرسے کی اسٹیبلشمنٹ اب ایک ارب پتی اور کروڑ پتی طبقہ ہے۔ یہ پاکستانی بورژوازی کا ایک نیا ونگ ہیں۔ مدرسے کی آڑ میں اب مضاربہ، اسلامی بینکنگ، کپڑوں کے برانڈ، سکول چینز (Chains)، یونیورسٹیاں، این جی اوز اور نہ جانے کیا کیا کچھ چلایا جا رہا ہے۔ پاکستان کے معیشت دانوں کو اس دھرم وادی معیشت پر تحقیق کرنی چاہئے۔
(۴) مدرسے نیو لبرلزم کی گھناونی شکل ہیں
مدرسے کے طالب علموں کا واحد جرم ان کے والدین کی غربت ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض اوقات مذہبی رجحانات کی وجہ سے تاجر طبقے یا متوسط طبقے کے لوگ بھی بچوں کو مدرسوں میں بھیج دیتے ہیں مگر مدرسوں میں رہائشی طلبہ کی اکثریت انتہائی غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے۔
ریاست کے نیو لبرل ٹرن کا مطلب ہے کہ صحت، تعلیم اور روزگار اب اسی کو ملے گا جو اس کی استطاعت رکھتا ہے۔ حکمرانوں کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ ٹیکس کی شکل میں عوام کا خون نچوڑو، اپنا حصہ جیب میں ڈالو اور باقی قرضوں کی شکل میں سامراج کو بھیج دو۔ سامراج سے نیا قرضہ لو، قرضوں کو اپنے سوئس اکاؤنٹس میں ڈالو۔ نیا ٹیکس لگاؤ۔ نئے ٹیکس میں سے اپنا حصہ جیب میں ڈالو اور باقی سامراج کو بھیج دو اور فخر سے بتاؤ کہ ہم نے بارہ ارب ڈالر قرضے ادا کئے ہیں۔ ان بھری ہوئی جیبوں سے اپنے بچوں کو گرامر سکول، بیکن ہاؤس یا ایچی سن بھیجو اور غریب کے بچے سے سرکاری سکول کی سہولت بھی چھین لو۔
شہزادہ سلمان سے بولو مولویوں کو ڈالر دے۔ ان ڈالروں سے جو مدرسے بنیں گے غریب کے بچے وہاں پڑھیں گے (یہی وجہ ہے کہ ایک ایلیٹ سکول کے جواب میں دس مدرسے کھل رہے ہیں)۔ جب ضرورت پڑے مدرسے کے ان بچوں کے پیٹ کے ساتھ بم باندھ دو۔ جب چاہے انہیں بندوق تھما دو۔ جب تک بچہ بارودی جیکٹ پہننے یا بندوق چلانے کے قابل نہیں ہوتا، اسے جمعے کے جمعے اپنے حجرے میں بلا کر ادھیڑتے رہو۔ یوں یہ غریب طلبہ غربت کی سزا کئی طرح سے کاٹتے ہیں۔ خود بھی جہنم میں زندگی گزارتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی دنیا کو جہنم بنانے پر تلے ہوتے ہیں۔ طالبان اس کی بہترین (یا بدترین) مثال ہیں۔
اس بدبو دار نظام کو جڑ سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ مدرسوں اور پرائیویٹ سکولوں کو قومی ملکیت میں لے کر ضرورت اس امر کی ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر تک تعلیم لازمی کی جائے۔ سکول میں کتابیں، کھیل کی سہولت، لائبریری کی سہولت، علاج کی سہولت کے علاوہ ناشتہ اور کھانا فراہم کیا جائے اور اٹھارہ سال سے کم عمر ہر بچے کے لئے کم از کم دو ہزار روپے وظیفہ مقرر کیا جائے جیسا کہ بعض فلاحی ریاستوں میں ہو رہا ہے۔
نہ صرف بچوں بلکہ والدین کو بھی تعلیم دی جائے کہ بچوں کو جنسی و جسمانی تشدد سے کیسے محفوظ رکھنا ہے۔
ریاست بچوں کی حفاظت کے لئے ہیلپ سنٹر قائم کرے جہاں جنسی و جسمانی تشدد کی شکل میں بچے رپورٹ کر سکیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔