ناصر اقبال
نیو ورلڈ آرڈر کی اصطلاح دنیا بھر کے میڈیا اور سیاسی حلقوں میں زیر بحث رہتی ہے۔ اکثر اوقات ان تین الفاظ کا ترجمہ اور تشریح مبہم اور ادھوری کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اس کا ترجمہ ’نیا عالمی نظام‘ کیا جاتا ہے۔
یہاں لفظ نظام میں ہمیں تھوڑا مسئلہ ہے۔ لفظ نظام سسٹم کا ہم معنی ہے اور کسی بھی قدرتی یا انسانوں کے بنائے ہوئے نظام یا سسٹم کے تمام اجزا معین ہوتے ہیں اور سرمایہ داری تو اپنے ہر قدم پر ”لگے داؤ“ کا نام ہے اس لیے اسے نظام کہنا زیادتی ہو گی۔
ہمارے خیال میں لفظ آرڈر کا درست ترجمہ ’ترتیب‘ ہونا چاہیے۔ خاص طور پر 1990ء کی دہائی میں نیو ورلڈ آرڈر کا ڈھول اسطرح پیٹا گیا کہ لگنے لگا جیسے دنیا میں یہ کوئی پہلا اور شاید آخری و ابدی آرڈر ہے۔ نیو کا سادہ سا مطلب ہے نیا اور نئے سے مراد یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے کوئی پرانے آرڈر بھی موجود تھے۔ عام طور پر گذشتہ آڈروں پر دنیا کا دھیان نہیں گیا۔ ان آڈروں کے متعلق کوئی سکہ بند یا حتمی رائے تو موجود نہیں البتہ مختلف ماہرین سماجیات نے اپنے اپنے اندازمیں ان کے خدوخال کو بیان کیا ہے۔
ماہرین ارتقا اپنی تحریروں میں عام طور پر کچھ اس طرح کی اصطلاحات کا استعمال تاریخ وار اعتبار سے کرتے رہے ہیں مثال کے طور پر جمادات، نباتات اور حیوانات۔ پھر ایک اور ترکیب رینگنے والے حیوانات کا دور، ڈائنو سار کا دور، ریڑھ کی ہڈی والے حیوانات کا دور اور اس کے بعد پھر ممالیا حیوانات کا دور۔ کچھ ارتقائی ماہرین نے زمینی یا زندگی کے ارتقا کو برفانی ادوار میں تقسیم کر کے سمجھنے اور بیان کیا ہے مثال کے طور پر پہلے اور دوسرے برفانی دور کے درمیان ہونے والی تبدیلیاں اسی طرح سے دوسرے اور تیسرے دور کی درمیانی تبدیلیاں وغیرہ۔ ارضیاتی ماہرین کے مطابق ہماری زمین پانچ بڑے برفانی ادوار سے گزر چکی ہے۔ بحرحال کسی بھی طریقے سے تقسیم کیا گیا ہر دور لاکھوں اور کروڑوں سالوں پر محیط ہے۔
عین اسی طرح بعض اوقات سماجی سائنس کے ماہرین بھی تاریخ انسانی کو مختلف ادوار میں تقسیم کر کے سماجی میکانیات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پتھر کے ہتھیاروں کو استعمال کرنے والا معاشرہ، تانبے اور لوہے کے ہتھیاروں اور اوزاروں کو استعمال کرنے والی تہذیبیں وغیرہ۔ بعض ماہرین معاشروں کو مدر سری اور پدر سری نظاموں میں بھی تقسیم کر کے انسانی معاملات کی تشریح کرتے ہیں۔ غار کے دور کا انسان، زرعی اور صنعتی دور کے انسان وغیرہ کی بھی تقسیم و تشریہات موجود ہیں۔ کلاسیکل، ماڈرن اور پوسٹ ماڈرن ازم کی اصطلاحیں زیر استعمال رہتی ہیں۔
موجودہ انسان یامعاشرے کی کل ارتقاعی تاریخ محض دس سے بارہ ہزار سال پر محیط ہے جبکہ زمین یا زندگی کا ارتقا اربوں سالوں سے جاری و ساری ہے۔ اگر انسانی معاشرتی ارتقاء کو زمینی ارتقا کے پس منظر میں دیکھا جائے تو معاشرتی ارتقا کا دورانیہ انتہائی مختصر دیکھائی دے گا۔
ماہرین سیاسیات کرۂ ارض کی کل یا اوسط سیاست کو تین ادوار یا آرڈرز میں تقسیم کر کے تجزیات کرتے ہیں۔ سرفہرست زور بازو (فوجی طاقت) کے ذریعہ سے حاصل ہونے والی سیاسی قوت یا حاکمیت کا دور، ٹیکنالوجی کی قوت سے حاصل حاکمیت کا دور اور تیسرے نمبر پر سرمائے کے زور پر حاکمیت کا دور۔ ان تینوں ادوار کی حصول اقتدار اور طریقہ حکمرانی کی حرکیات مختلف رہی ہیں اس لیے انہوں نے معاشرے یا معاشروں پر الگ الگ اثرات مرتب کیے۔ ان اثرات میں کچھ کو بہتر، کچھ کو برے کہا جا سکتا ہے، کچھ نظریہ ضرورت کے تحت اور اچھے برے اثرات کے علاوہ جو ارادتاً یا شعوری طور پر تو مرتب نہ ہوئے بلکہ مختلف عوامل کے ردعمل میں یا خود کار ارتقائی طریقے سے وقوع پذیر ہوئے۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہاں ہم چند وضاحتیں ضروری خیال کرتے ہیں۔ حاکمیت اور حاکمیت اعلیٰ کے تصورات میں فرق کیا جائے گڈ مڈ کی صورت میں نتائج اخذ کرنے میں گڑ بڑ ہو سکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ انواع میں ارتقائی تبدیلیاں اپنی نوعیت میں یکسر یا کلی نہیں ہوتیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ کچھ اضافہ اور کچھ جھڑ پت ہو جاتی ہے۔ آج کا انسان اپنے کروڑوں سالوں کے ارتقا کے بعد بھی بال، ناخن، کھال کی شکل میں اپنے نباتاتی ارتقائی دور کی نشانیاں اٹھائے چل پھر رہا ہے۔
زور بازو والا یا فوجی دور جو کہ زمانہ قبل از تاریخ سے 1300ء تک کا ہے۔ تقریباً دس ہزار سال پر محیط دور کی خاصی ضخیم تاریخ ہے۔ زراعت کا آغاز، غلام داری نظام، مدر سری اور پدر سری خاندانی نظام، جانوروں کو پالتو کرنا، زبانوں کا آغاز، تجارت اور سرمایہ داری، ریاست کا آغاز، مختلف مذاہب کا ظہور، فن تعمیرات، یونانی فلسفہ، تاریخ بنی اسرائیل، قرون وسطیٰ و اولیٰ، یونان، مصر، میسوپوٹیمیا، رومن ایمپائرز وغیرہ اس دور کے بڑے موضوع ہیں۔ اس دور کی خاص بات یہ تھی کہ حاکمیت اعلیٰ کے حصول اور لاگو یا مضبوطی کا ایک ہی فارمولہ تھا یعنی بازو کی طاقت، تلوار کی تیزی اور چلانے میں روانی۔ جس گروہ انسانی کے پاس جتنی طاقت اتنی حاکمیت، اس سارے عمل میں سرمایہ اور ٹیکنالوجی (ابتدائی اوزار سازی) کی بھی اہمیت تھی لیکن محض ثانوی حتمی فیصلہ بازو تلوار سے ہی کیا جاتا۔
ٹیکنالوجی کی حاکمیت اعلیٰ کا دور بعض ماہرین کے نزدیک برطانیہ میں بھاپ کے انجن کی ایجاد یعنی 1760ء سے شروع ہوتا ہے اور کچھ ماہرین اسے یورپ کی تحریک برائے احیائے علوم Renaissance یعنی 1300-1700ء سے شروع کرتے ہیں۔
اس دور کے بڑے موضوع معاہدہ میگنا کارٹا، انسانی حقوق، حقوق نسواں، مزدوروں کے حقوق، رسمی تعلیم، جمہوریت، جدید یا سیکولر ریاست کے تصورات، سائنسی ایجادات، سماجی سائنسی علوم کی ترقی، انقلاب فرانس، دور غلامی کا خاتمہ، انقلاب روس، سمندری تجارتی راستوں کی دریافت، آسٹریلیا اور امریکہ کی دریافت وغیرہ کے ساتھ ساتھ بد ترین نو آبادیاتی فتوحات اور نظام جس میں محکوم اقوام کے تمام سیاسی و سماجی حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا۔ ماحولیاتی آلودگی، خون آشام عالمی جنگیں اور ایٹمی تباہی بھی اسی دور کی یادگاریں ہیں۔
تقریباً ساڑے پانچ سو سالہ اس دور میں حاکمیت اعلیٰ کا تصور تلوار بازی سے ٹیکنالوجی پر شفٹ کر گیا۔ فن حرب اور سرمائے کو ثانوی حیثیت حاصل رہی۔ جس قوم، ملک یا گروہ کے پاس جتنی جدید اور زیادہ ٹیکنالوجی ہوتی اسی قدر زیادہ اقتدار حاصل کر پاتا۔ صنعتی انقلاب کی ابتدا برطانیہ سے ہوئی تھی اسی لیے برطانیہ کو سپر پاور کا درجہ حاصل ہوا۔ ٹیکنالوجی کی بدولت سیاسی غلبہ حاصل کرنے کی دوڑ میں فرانس، جرمنی، جاپان، روس، سپین، ہالینڈ، پرتگال وغیرہ بھی شامل تھے۔ ان تمام نے بھی حصہ بقدر جثہ کے اصول کے تحت دنیا میں اپنی اپنی نو آبادیاں قائم کیں۔ ان نو آبادیوں سے سستی لیبر اور سستے بلکہ لوٹے گئے خام مال کو اپنے اپنے ملکوں کی فیکٹریوں میں کم لاگت پر مال تجارت تیار کر کے اچھی قیمت پر فروخت کیا اور بڑا منافع کمایا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منافع اور منڈیاں حاصل کرنے کی ہوس میں یہ آپس میں دست و گریباں ہوئے اور 1945ء میں یکے بعد دیگرے دو عالمی جنگیں لڑ کر نا صرف خود تباہ ہوئے بلکہ دنیا بھر میں قائم ان کی سیاسی اجارہ داریاں (نو آبادیاں) بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئیں۔
مذکورہ ممالک اپنے دور اقتدار میں کسی کو اپنی مشینری یا ٹیکنالوجی فروخت تو دور کی بات ہوا تک نا لگنے دیتے۔ برطانیہ جیسے آزادیوں کے علمدار ملک میں ہنرمند وں کی نقل مکانی پر سخت پابندیاں تھیں۔ اب ہم آتے ہیں تیسرے دور یا نیو ورلڈ آرڈر یا سرمایہ کی حاکمیت اعلیٰ کے دور کی طرف جسے امریکہ بہادر نے 1944ء میں متعارف کروایا اور 1945ء کی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے لاگو کر دیا۔ اس دفعہ حاکمیت اعلیٰ کی گذشتہ تراتیب میں ہی ترمیم کر کے یعنی فوجی قوت اور ٹیکنالوجی کو ثانوی حیثیت دے کر سرمایہ کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا گیا۔ جس کے پاس سرمایہ ہو گا اسے ہی حکومت کرنے کا حق ہو گا اور جتنا زیادہ سرمایہ اتنا ہی اقتدار میں حصہ۔
سکہ جمانے کے لیے امریکہ نے پہلے مارشل پلان کے تحت جنگ سے تباہ حال ممالک کو سودی قرضے جاری کیے تا کہ ان ممالک کی تعمیر نو ہو سکے۔ اسکے بعد تقریباً پوری دنیا کو ہی اس جال میں لپیٹ لیا گیا۔ یہاں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ امریکہ اتنا سرمایہ کہاں سے لایا تو عرض ہے کہ جس سمے ٹیکنالوجی کے چمپئن اپنی اپنی کالونیوں کو وسعت دینے ا ور جنگیں اور بعد میں عالمی جنگیں لڑنے میں مصروف تھے اس وقت امریکہ بڑے آرام کے ساتھ تمام جھگڑوں سے دور اپنی زراعت کو ’ترقی‘ دے رہا تھا۔ زرخیز زمینوں کی کمی نہ تھی جو ریڈ انڈین باشندوں سے چھینی گئیں، سستی افرادی قوت کے لیے بڑے پیمانے پر افریقی باشندوں کو افریقہ سے اغوا کیا جاتا، زمینوں پر بیگار لی جاتی اور باقی ماندہ کو دنیا میں فروخت کر دیا جاتا۔ یوں غلاموں کی تجارت، استعمال اور زرعی اجناس کی تجارت سے امریکہ نے بہت فاضل مقدار میں سرمایہ اکھٹا کر لیا جسے پھر سامراجی مقاصد یا سیاسی غلبے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اب سوال ہے کہ یہ دور انسانیت پر کس طرح کے اثرات مرتب کر سکا۔ مثال کے طور پربرصیغر کے معاشرے کاایک مختصر تقابلی جائزہ پیش خدمت ہے۔
پہلے ورلڈ آرڈرکے دور کابرصغیر سونے کی چڑیا کہلواتاتھا، امیر اور غریب کا فرق کم تھا، روزگار کے مواقع سو فیصد، خوراک اور دوسری اشیا صرف کی پیداوار میں خود کفیل تھا، شہری ترقی کا موازنہ پیرس اور لندن سے کیا جاتا۔
دوسرے ورلڈ آرڈر کے دوران برصغیر پیداواری معاشرے سے صارف معاشرے میں ڈھلا، بڑے بڑے قحط اور بیروزگاری، تین چار ساحلی شہروں کی ترقی اور باقی کے تمام شہر نظر انداز۔ تیسرے ورلڈ آرڈر کے دور کا برصغیر فقط ایک کچی آبادی یا جنجال پورہ کا منظر پیش کرتا ہے۔ جنگی جنون، غربت میں مسلسل اضافہ، سودی قرضوں کا بوجھ، آج ایک ہلکی سی بارش شہروں کو مفلوج کرنے کے لئے کافی ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے نیو ورلڈ آرڈر نے پوری دنیا میں اسی طرح کے ہی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہماری ناقص عقل کے مطابق سرمائے کا یہ دور انسانیت کو کوئی ایک اچھی یا مثبت روایت یا کوئی بھی اور چیز نہیں دے سکا۔ ہمارے کسی دوست کو اس بات سے اگر کوئی اختلاف ہے تو براہ مہربانی ہماری تصیح ضرور کرے۔ اس دور ہونے والی سیاہ کاریوں پر لا تعداد کتابیں لکھی گئیں اور لکھی جا رہی ہیں۔ بطور مثال چند ایک کا ذکر ہم بھی کر دیتے ہیں۔
ایٹمی تباہی، دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ، جنگی جنون، ہر قسم کی غربت میں بے پناہ اضافہ، اجارہ دار منافع خوری، کرپشن، نااہل حکمران طبقات کی سرپرستی، دنیا بھر میں خواہ مخواہ کی جنگوں میں لاتعداد انسانوں کی ہلاکت اور کھربوں ڈالرز کا نقصان، پراکسی وارز کے تصورات، بنیاد پرستی اور قوم پرستی کا فروغ، ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اوپن ہیمیر، حفیظ پاشا اور شوکت عزیز جیسے ماہرین کی پرورش اور سرپرستی، اربوں محنت کش عوام، خواتین اور بچوں کو حاصل شدہ حقوق بھی چھن جانے کا ہمہ وقت خوف، سماجی خدمات کی نجکاری، انسانی ہجرت پر لایعنی پابندیاں، بے حس، بے اثر عالمی اداروں اور بے مقصد، بے سمت علاقائی اتحادوں کا قیام اور مہنگی سرپرستی، کرائے کی ریاستوں کا تصور وغیرہ۔
نیو ورلڈ آرڈر کی شروعات امریکہ سے ہوئی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مذکورہ معاملات کی کلی ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ کہلوانے والی تمام دنیا بشمول روس اور چین کی ریاستوں کے اس کھیل میں سب برابر کے شریک ہیں۔