فاروق طارق
ہفتے کے روز سابقہ فاٹا کے علاقوں میں خیبر پختونخواہ اسمبلی کی 16 صوبائی نشستوں کے لئے منعقدہونے والے عام انتخابات کے نتائج کا اعلان الیکشن کمیشن نے کر دیا ہے۔ ان نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے پانچ، آزاد امیدواروں نے چھ، جمعیت علمائے اسلام نے تین جبکہ جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی نے ایک ایک نشست جیتی ہے۔
اول تو ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔ صرف 28 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ دوسرا یہ تاثر بھی موجود ہے کہ حکومتی امیدواروں کو جتوانے کے لئے بڑے پیمانے پر نتائج میں رد و بدل کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے غیر حکومتی امیدواروں کے حامی سوشل میڈیا پر بھی بڑے پیمانے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے اراکینِ قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کے جیل میں ہونے سے بھی اس تاثر کو تقویت ملتی ہے۔
ان دونوں اضلاع کے چار حلقوں سے تمام تر مشکلات کے باوجود فارم 47 کے مطابق ان دونوں اراکین قومی اسمبلی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے 37000 سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ حکمران جماعت کے امیدواروں نے 34000 ووٹ لیے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے ووٹوں کی تعداد بھی اتنی ہی رہی۔
انتخابات میں چار امیدوار ایسے تھے جو پشتون تحفظ موومنٹ(پی ٹی ایم) سے وابستہ سمجھے جا رہے تھے۔ علی وزیر کے رشتہ دار عارف وزیر حلقہ 14 سے امیدوار تھے۔ ان کے ووٹوں کی تعداد فارم 47 میں 10272 ظاہر کی گئی ہے جبکہ جیتنے والے تحریک انصاف کے امیدوار کے ووٹ فارم 47 کے مطابق 11114 ہیں۔ یعنی عارف وزیر ایک ہزار سے کم ووٹوں سے ہارے ہیں یا ہروائے گئے ہیں۔ اسی حلقہ سے جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار نے 7103، جماعت اسلامی نے 81، پاکستان پیپلز پارٹی نے 1051 اور عوامی نیشنل پارٹی نے 981 ووٹ حاصل کیے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت سے جیتنے والے واحد امیدوار میر کلام وزیر نے 12057 ووٹ حاصل کیے۔ ان کا نتیجہ بھی روک لیا گیا تھا مگر احتجاج کے باعث یہ نتیجہ اب جاری کرنا پڑا ہے۔
کئی حلقوں میں مبینہ دھاندلی کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کی بھی اطلاعات ہیں جنہیں کمرشل میڈیا مکمل طور پر نظر انداز کر رہا ہے۔
سابقہ فاٹا کے ان صوبائی انتخابات میں پولنگ سے قبل حکومت مخالف امیدواروں کی کمپئین کو بے شمار پابندیوں کا سامنا تھا۔ حالات اس قدر دگرگوں تھے کہ الیکشن کمیشن کو مداخلت کرنی پڑی اور کہنا پڑا کہ انتخابی مہم کے دوران کسی امیدوار کو گرفتار نہ کیا جائے اور گرفتار امیدواروں کو رہا کیا جائے۔
انتخابات سے قبل اکثر علاقوں میں کرفیو جیسی صورتحال رہی اور کچھ وقت دفعہ 144 کا نفاذ بھی رہا۔ پولنگ کے دوران یہ شکایات بھی ملی ہیں کہ ووٹ پہلے ہی کاسٹ ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ پولنگ سٹیشن دور دور بنائے گئے تھے۔ پولنگ والے دن تحریک انصاف کے حق میں ’گڈ طالبان‘ کی سرگرمیوں کی بھی اطلاعات اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ اسی طرح مذکورہ بالا انتخابی فارموں میں رد و بدل کی تصویریں بھی چل رہی ہیں جن میں سے ایک نیچے دی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے 2018ء کے عام انتخابات کی طرح یہ انتخابات بھی خاصے متنازعہ اور غیر شفاف رہے ہیں۔ تاہم اس سب کے باوجود انتخاب ان علاقوں میں پہلی دفعہ منعقد ہوئے اور لوگوں کواپنے امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کا محدود موقع ملا۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ان انتخابات سے قبل قومی اسمبلی نے ان علاقوں کی نشستیں بڑھانے کے لئے محسن داوڑ کی پیش کردہ 26 ویں آئینی ترمیم متفقہ طور پر منظور کی تھی۔ لیکن اس آئینی ترمیم کے مطابق ان انتخابات کو منظم نہ کیا گیا۔اب اگر اس ترمیم پر عمل ہوا تو یہ چند سالوں بعد ہی ہو سکے گا۔
ایک اور بات جو ابھر کر سامنے آئی وہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں مذہبی ووٹ ابھی موجود ہے لیکن جہاں سے پی ٹی ایم کے حمایت یافتہ امیدواروں نے انتخاب لڑا وہاں مذہبی جماعتوں کو ملنے والا ووٹ کافی کم ہو گیا۔
سرمایہ دارانہ انتخابات بارے کارل مارکس نے کہا تھا کہ محنت کش عوام کو عام طور پر صرف یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنا استحصال کرنے والوں کا انتخاب کر لیں۔ یہ بات بڑی حد تک ان انتخابات پر بھی لاگو ہوتی ہے۔