فاروق سلہریا
افغانستان میں ’فتح مکہ‘پر پاکستانی حکمران ہی نہیں پوری قوم یوتھ انتہائی خوش ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق پچپن فیصد لوگ طالبان کے کابل پر قضے کے حامی ہیں۔ عام لوگوں کو تو ا سلسلے میں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ان تک جب سچ، متبادل سوچ اور بیانیہ پہنچے گا ہی نہیں تو ان کے ذہن حکمرانوں کی مرضی کے مطابق سوچتے رہیں گے۔
ہمارا مندرجہ ذیل تجزیہ قوم یوتھ بارے ہے۔قوم یوتھ سے مراد محض پی ٹی آئی کے ماننے والے نہیں۔ اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو مراعات یافتہ مگر عوام دشمن ہیں۔ یہ عمومی طور پر آپ کو ٹیلی ویژن کی اسکرین، ٹوئٹر، ائر کنڈیشنڈ گھر یا دفتر، کسی مہنگے کیفے یا ریستوران میں ہی نہیں ملیں گے، ان کی ایک بڑی تعداد مغربی ممالک میں بطور تارکین وطن بھی موجود ہے۔
ان میں خواتین بھی شامل ہیں اور مرد بھی۔یہ ارب پتی بھی ہو سکتے ہیں، کروڑ پتی بھی۔ ممکن ہے انہوں نے کوئی وردی زیب تن کر رکھی ہو، اکثر اوقات یہ سول لباس میں ہوں گے لیکن مہنگے ترین ڈریس کے باوجود عیوب برہنگی چھپائے نہ چھپ رہے ہوں گے۔
جب ان لوگوں نے طالبان کی ’فتح مکہ‘ پر شادیانے بجائے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ سٹاک ہولم سنڈروم کا شکار ہیں ورنہ ستر ہزار پاکستانیوں کے قاتل کس طرح ہیرو قرار دئے جا سکتے ہیں۔
یہ تشخیص انتہائی غلط ہے۔
دیکھئے!سٹاک ہولم سنڈروم سے مراد ہے پیراڈوکس (paradox) یعنی اجتماع ِضدین۔ سٹاک ہولم سنڈروم کا ایک مطلب یہ ہے کہ مغوی کو اپنے اغوا کار کی انسانیت پر اعتبار ہے اور مغوی فرد کی بجائے نظام کی بات کرنا چاہتے ہیں جس نے کسی کو اغوا جیسے جرم پر مجبور کیا۔
سٹاک ہولم سنڈروم ستر کی دہائی میں ایک ایسے سویڈن میں سامنے آیا تھا جو سوشلسٹ خیالات سے متاثر تھا (اب والا تو سویڈن بھی بہت نئیو لبرل ہو چکا ہے)۔ انسان دوستی اُس سویڈش معاشرے کی ایک بڑی قدر تھی۔ جرائم کا حل سخت سزاوں کی بجائے یہ سمجھا جاتا تھا کہ ا ن ناہمواریوں اور abnormalities کو ختم کیا جانا چاہئے جو جرائم کو جنم دیتی ہیں۔
معاف کیجئے! قوم یوتھ سٹاک ہولم سنڈروم کا شکار نہیں۔ یہ قوم انسان دوستی،سوشلزم اور جمہوریت سے کوسوں نہیں، کئی شمسی سال دور ہے۔
یہ لوگ سٹاک ہولم سنڈروم نہیں،وینا ملک سنڈروم کا شکار ہیں۔ اس سنڈروم یا ڈِس آرڈر کا شکار افراد کی پہلی علامت (symptom)ہے موقع پرستی۔ موقع پرستی کا مطلب ہے کہ آپ نہ طالبان کے ساتھ ہیں نہ افغان عوام کے ساتھ۔ آپ در اصل طاقتور کے ساتھ ہیں۔
بہ الفاظ دیگر آپ صرف اپنے مفادات کو اہم سمجھتے ہیں۔ جب آپ کو نظر آئے گا کہ طالبان کی بجائے امریکہ کا ساتھ دینا زیادہ سود مند ہے تو طالبان ایک دم دہشت گرد نظر آنے لگیں گے۔
وینا ملک سنڈروم کا مطلب ہے:اگر آپ کو بھارتی میگزین پیسے دے کر،آئی ایس آئی کے ٹیٹو بنوا کر، برہنہ تصاویر چھاپ دے،آپ کو کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ آپ کو پیسے اور شہرت،دونوں مل جائیں۔ جوں ہی آپ کو محسوس ہو کہ اب واپس کراچی جانا پڑے گا اور آپ کراچی ائر پورٹ پر اترتے ہی سبز ہلالی پرچم تھام کر مزار قائد پر پہنچ جائیں جہاں پریس کانفرنس میں کشمیر اندر ہونے والے ’ہندو مظالم‘ کو بے نقاب کرتے ہوئے آپ کو یاد آئے کہ پاکستان کا بہترین ادارہ پاک فوج ہے تو اسے سٹاک ہولم سنڈروم نہیں، وینا ملک ڈس آرڈر قرار دیا جا ئے گا۔
اس ڈس آرڈر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ مظلوم کے خلاف ظالم کا ساتھ دیتے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ گاہے بگاہے آپ ظلم کے خلاف بھی بات کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کو فلسطین میں ہونے والا ظلم صاف دکھائی دے گا۔بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی نا انصافیاں بغیر دور بین کے نظر آنے لگیں گی۔
مصیبت اس سنڈروم کی یہ ہے کہ اپنے پچھواڑے میں ہونے والے ماس ریپ اور قتل عام نظر نہیں آتے کیونکہ وینا ملک سنڈروم کا شکار لوگ اس ظالم کے خلاف ہوتے ہیں جس سے انہیں نقصان پہنچنے کا ڈر نہ ہو۔ ایک پرانا صحافتی لطیفہ یاد آ رہا ہے:
امریکی صحافی: ہمارے ملک میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے، ہم جتنا چاہے امریکی صدر پر تنقید کر سکتے ہیں۔
سعودی صحافی: ہمارے ملک میں بھی اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے، ہم بھی جتنا چاہے امریکی صدر پر تنقید کر سکتے ہیں۔
جس طرح وینا ملک سنڈروم کی عادی قوم یوتھ صرف اس ظلم وظالم کے خلاف ہو گی جس کے نتیجے میں اسے کوئی نقصان نہ پہنچے،اسی طرح یہ صرف اس مظلوم کا ساتھ دیں گے جس کے ساتھ یکجہتی کے لئے کوئی مصیبت نہ اٹھانا پڑے۔ یقین کیجئے فلسطین سے محبت کرنے والی اس قوم یوتھ کے افراد کو اگر فلسطین میں رہنا پڑے تو ان سے بڑا صیہونی کوئی ثابت نہ ہو گا۔
نتیجہ اس سنڈروم کا یہ نکلتا ہے کہ اہل یوتھ نرگسیت زدہ ہمدردی کا شکار نظر آئیں گے۔ انہیں اُمہ پر ہونے والے مظالم نظر آئیں گے مگر اُمہ کی جانب سے اپنے ہی بھائی بندوں پر مظالم نظر نہیں آئیں گے۔ انہیں ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں سے بہت ہمدردی ہو گی مگر خود کش حملوں پر بات نہیں کریں گے۔ انہیں پاکستانی طالبان اچھے نہیں لگیں گے،افغان طالبان ان کے ہیرو ہوں گے۔ ان کو فلسطینی نظر آئیں گے،سلطان اردگان کی وحشیانہ بمباری میں ہلاک ہونے والے کرد نہیں۔ ان کو وادی کے کشمیری نظر آئیں گے مگر بلوچ نہیں۔ انہیں یورپ میں اسلاموفوبیا دکھائی دے گا مگر سنکیانگ کے مسلمانوں بارے ان کے وزیر اعظم کے پاس بھی معلومات دستیاب نہیں ہوں گے (حالانکہ اس سے زیادہ با علم وزیر اعظم انسانی تاریخ میں نہیں آیا)۔
بہ الفاظ دیگر ان کا موقف یونیورسل نہیں ہو گا۔ جو موقف یونیورسل نہیں ہوتا، وہ صرف موقع پرستی ہوتا ہے۔
موقع پرستی کو صرف منافقت نہ سمجھا جائے۔ موقع پرستی منافقت سے آگے کی چیز ہے۔ منافقت تو ایک غریب اور مجبور انسان اپنی بچت اور جان بچانے کے لئے بھی کر سکتا ہے۔ موقع پرستی کا مطلب ہے موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی مراعات اور طاقت میں اضافہ کرنا۔موقع پرستی کا مطلب ہے اپنی اخلاقی و انسانی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹ جانا۔ موقع پرستی کا مطلب ہے کہ موقع پرست شرم،غیرت، سچائی یا دیگر ایسی انسانی اقدار پر کوئی یقین نہیں رکھتا۔
منافق کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اس کا بھانڈا پھوٹ نہ جائے۔ موقع پرست کو بھانڈا پھوٹنے کا ڈر نہیں ہوتا۔ وینا ملک کے آئی ایس آئی ٹیٹو والے شُوٹ بھی گوگل کرتے ہی پہلے کلک پر مل جاتے ہیں اور وینا ملک کے پاک فوج سے محبت کے ٹویٹ بھی ان کے ٹوئٹر ہینڈل پر موجود ہیں۔گویا کسی بھانڈے کے پھوٹنے کی کوئی فکر نہیں۔ اس لئے اسے منافقت نہیں، موقع پرستی ہی کہا جا رہاہے۔
اس بیماری کی ایک تازہ مثال جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال ہیں۔ ساری زندگی وکالت کرنے اور ہائی کورٹ کا جج (جو بے نظیر بھٹو نے مقرر کیا) رہنے کے بعد انہیں لگ رہا ہے کہ طالبان بہت کیوٹ (cute)ہیں۔ طارق جمیل سے لے کر حمزہ عباسی تک،سرکاری افسران سے لے کر ارکان ِپارلیمنٹ تک، ایسی بے شمار مثالیں آپ کو مل جائیں گی۔
اس وینا ملک سنڈروم کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کا شکار افراد براہِ راست ظلم نہیں کرتے۔ یہ صرف ظالم کا ساتھ دیتے ہیں،صرف ہلہ شیری تک بہادری دکھاتے ہیں۔صرف سوشل میڈیا پر بہادری کے جوہر دکھاتے ہیں۔ یہ لوگ ظالم کوبہ وقت ضرورت چندہ دیتے ہیں تا کہ بعد ازاں منافع کمایا جا سکے۔ظلم میں براہ راست حصہ نہ لینے کی وجہ یہ نہیں کہ ان میں کسی قسم کی انسانیت پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ بھی نہیں ہوتی کہ یہ انتہا کے بزدل ہوتے ہیں۔ اس کی واحد وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتے۔ اس گروہ کی بہترین تجسیم فرانسیسی ادیب موپساں نے اپنے افسانے Boule de Suif میں کی ہے۔
یاد رہے ماہرین نفسیات نے ابھی تک سٹاک ہولم سنڈروم کو ایک بیماری نہیں مانا۔اس لئے اس کا کوئی علاج بھی تجویز نہیں کیا گیا۔ وینا ملک ڈس آرڈر البتہ ایک خطرناک بیماری ہے۔
ہاں مگر یہ کوئی نفسیاتی بیماری نہیں ہے۔یہ سماجی و سیاسی و نظریاتی بیماری ہے۔اس کی تشخیص ماہرین نفسیات نہیں،ترقی پسند سیاسی کارکن کر سکتے ہیں۔خوش قسمتی سے اس کا علاج بھی ممکن ہے۔
اس بیماری کا علاج ہے سوشلزم۔
اس علاج کے نتیجے میں ان مراعات کا خاتمہ کرنا درکارہوتا ہے جن کے نتیجے میں قوم یوتھ وجود میں آتی ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔