کامریڈ فقیر
نیٹ فلیکس کا ایک سیزن دنیا بھر میں اس وقت ہاٹ کیک بنا ہوا ہے۔ جس کے ریویوز دنیا بھر کا میڈیا لکھ رہا ہے اور اپنے اپنے انداز میں اس کی تشریح کر رہا ہے۔ سیزن کے نظریاتی ،سماجی اور نفسیاتی پہلووں پر بات کرنے سے پہلے کہانی سنانے کے انداز، سکرین پلے اور ڈائریکشن کی پذیرائی کرنا ضروری ہے۔ کہانی میں بے پناہ ڈرامائی اور سسپنس کا عنصر موجود ہے۔ سیزن کو نو اقساط میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی قسط مرکزی کردار کے گرد زیادہ گھومتی ہے۔ جس کے ساتھ باقی کے کردار جڑتے جاتے ہیں۔ کرداروں کی یہ جڑت بظاہر اتفافیہ لگتی ہے لیکن یہ اتفاق قسمت کی کوکھ سے نہیں بلکہ معاشی مسائل سے جنم لیتا ہے۔ وہ معاشی مسائل جس نے انہیں زندگی کے مرکز سے حاشیے میں دھکیل دیا ہے اور وہ معاشی جبر اور اس سے پھوٹنے والے بالواسطہ تشدد کا شکار ہو کر خود عرضی، لالچ اور مطلبی ہونے کی راہ پہ گامزن ہیں۔کہانی کا پلاٹ پہلی دو اقساط میں دنیا کی تیزی سے ابھرنے والی ساوتھ کورین معیشت کا پوسٹ مارٹم کرتا ہے۔
پہلی قسط میں ریڈ لائیٹ اور گرین لائیٹ سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس گیم میں حصہ لینے والے تمام افراد معاشی دوڑ میں ناکامی کے بعد اب زندگی کوپھر سے ایک چانس دینے کے لیے کسی شاٹ کٹ کی تلاش میں ہیں اور وہ شاٹ کٹ انہیں گیم شو کی صورت میں ملتا ہے۔جن ممالک میں ایک طرف کارپوریٹ سیکٹر اور سرمایہ داری کی بڑھوتی ہو رہی ہے اور دوسری طرف امیری غریبی کا فرق بڑھ رہا ہے، وہاں کے کارپوریٹ ٹی وی چینلوں پہ نظر آنے والے گیم شوز میں معاشی مسائل سے تنگ آئے لوگ نظر آتے ہیں جو اپنی محنت، ذہانت اور ٹیلنٹ کا دام لگوانے اور زندگی کے لیے دوسرا موقع تلاش کرنے آتے ہیں۔ سیزن میں سب کھلاڑیوں کے پرو فائلز دکھائے جاتے ہیں جس میں ان کی صلاحیتوں اور ناکامیوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی بھارتی چینلوں پر پیش ہونے والے گیم شوز جیسے کون بنے گا کروڑ پتی میں ہاٹ سیٹ پر پہنچنے والے کا تعارف اور معاشی بیک گروانڈ ضرور بتایا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ یہ پیسہ جیت کر کیا کرے گا۔ سیزن میں بھی ہر کھلاڑی یہی بتاتا ہے کہ وہ یہ پیسہ جیت کر کیا کرے گا۔
سیزن کی دوسری قسط کا عنوان ہیل یعنی جہنم ہے۔ یہ قسط جنوبی کوریا کے سماجی اور معاشی ڈھانچے کو زیادہ صراحیت سے پیش کرتی ہے۔ وہ کردار جو خونی گیم سے بھاگ کر واپس آتے ہیں تو انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جس معاشی نظام میں واپس آئے ہیں وہ انہیں رفتہ رفتہ قتل کرے گا اور بدلے میں انہیں کچھ نہیں ملے گا جبکہ گیم میں موت اچانک ہوگی اور بدلے میں ان کے لواحقین کو کچھ نہ کچھ ضرور مل جائے گا۔
کہا نی کا مرکزی کردار گیم میں اس لیے واپس جاتا ہے کہ اس کی ماں بیماری کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا رہی ہے اور اس کے پاس ہسپتال کا بل دینے کے لیے رقم نہیں ہے۔ اور یہ کردار ایک ایسی فیکٹری کا ملازم تھا جس نے مزدوروں کو اچانک ایک دن نوکری سے فارغ کر دیا۔ اس کی دوسری بڑی پریشانی اپنی دس سالہ بیٹی ہے جسے وہ ایک بہتر مستقبل دینا چاہتا ہے۔
اسی قسط میں ہمارا سامنا پاکستانی اور شمالی کوریا کے مہاجرین سے بھی ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک ریاست اسلامی اور دوسری ریاست کمیونسٹ نظریہ پر قائم ہوئی ہے۔ ستر سال گزرنے کے باوجود بھی دونوں ریاستوں کے شہری سیاسی اور معاشی جبر کے باعث مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن کا استحصال ترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ دار اور جرائم پیشہ افراد کر رہے ہیں۔
سکویڈ گیم میں کھلاڑی تمام گیمز اپنے بچپن میں کھیل چکے ہیں۔ بظاہر تو یہ بات زیادہ حیران کن نظر نہیں آتی بلکہ ناظرین کی دلچسپی بڑھانے اور برقرار رکھنے کا عنصر ہے لیکن اگر گیمز کو کہانی میں پیش کی گئی معاشی فلاسفی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ گیمز بچپن سے ہی انسان کو ’’سروایول آف دی فٹیسٹ‘‘ یعنی طاقتور کی بقا کا درس دیتی ہیں۔
معاشی اور سماجی نظام میں موجود مقابلے اور مسابقت کی فضامیں یہی گیمز کارفرما ہیں۔ ان گیمز کا انجام سکویڈ گیم پہ ہوتا ہے جو بچے کو پر تشددبناتی ہے اور پھر یہی تشدد اس کے ساتھ پروان چڑھتے ہوئے نظام زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔ سیزن میں کھلاڑیوں کو جس جزیرے پہ رکھا جاتا ہے وہ خود ایک ’’ریاست ‘‘کا تصور پیش کرتا ہے۔ ایک ایسی ریاست جس کا دعوی ٰ ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو مقابلے کا مساوی موقع دیتی ہے ( اس بات سے قطع نظر کہ ان کی اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں کیا ہیں)۔ گیمز کے منتظمین کی طرف سے ہر کھلاڑی کے مرنے پر انعام کی رقم بڑھا دی جاتی ہے جو کھلاڑیوں کو اس بات کا لالچ دیتی ہے کہ جتنے کھلاڑی کم ہوں گے اتنی رقم زیادہ ہو گی اس لیے وہ کھلاڑیوں کو کم کرنے کے لیے پر تشدد دنگوں میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیتے ہیں اور منتظمین اس قتل و غارت گری سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور انعام کی رقم میں اضافہ کرتے جاتے ہیں۔ اگر دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والے نسلی،لسانی اور مذہبی فسادات کا جائزہ لیں تو ان کی بنیاد میں معاشی وجوہات ہی کار فرماہوتی ہیں۔ چاہے یہ فسادات 1871ء میں امریکی ریاست لاس اینجلس میں ہوں جس میں سفید فام اور ہیسپنک افراد نے چائینز مہاجرین کو اس لیے قتل کیا کہ ان کا خیال تھا کہ وہ ان کی نوکریاں کھا جائیں گے یا پھر بھارت کے ضلع مظفر نگر جس میں ہندو مسلم فسادات لو جہاد کے نام پر بھڑکائے گئے جس میں وہ مسلمان زیادہ قتل ہوئے جو مزدور پیشہ تھے۔ اس قتل عام میں دلت مزدوروں نے بھی اونچی ذات کے ہندووں کا ساتھ دیا کیونکہ انہیں لگا تھا کہ یہ مسلمان مزدور ان کی نوکریاں کھا جائیں گے۔ ان فسادات نے ہندو مسلم کسانوں کا اتحاد توڑ دیا جس کا سب سے بڑا فائدہ وہاں کی شوگر ملز کو ہوا ( مظفر نگر کے فسادات کی معاشی وجوہات پر ڈاکو منٹری ’’مظفر نگر باقی ہے ‘‘دیکھی جا سکتی ہے )۔
سیزن میں جزیرے پر جو ’’ریاست‘‘ قائم کی گئی ہے اس کے بطن سے جرائم پیشہ عناصر بھی جنم لیتے ہیں جو ریاستی بیورکرویسی اور محافظوں پر مشتمل ہیں جو انسانی اعضا نکال کر بیچنے کے قبیح دھندے میں ملوث ہیں۔ ان جرائم پیشہ افراد کو منتظم اعلی کہتا ہے کہ وہ انسانی عضا بیچتے ہیں یا نہیں اسے فرق نہیں پڑتا۔ فرق صرف اس سے پڑتا ہے کہ انہوں نے اس کے لیول پلینگ فیلڈ اصول کو پامال کیا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ اخلاقیات کی بہترین عکاسی ہے۔
ان گیمز کو دیکھنے والے وہ وی آئی پیز ہیں جو ان گیمز میں سرمایہ لگا رہے ہیں۔ یہ وی آئی پیز کارپوریٹ فرمز کے سی ای اوزبھی ہو سکتے ہیں، ریاست یا پھر دنیا کی دولت کو کنٹرول کرنے والے چند افراد بھی یہ دیکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اسکی تشریح کیسے کرتا ہے۔ لیکن نتیجہ یہی ہے کہ انہوں نے انسانوں کو ریس کے گھوڑوں میں تبدیل کر دیا ہے جہاں لنگڑے گھوڑے کا مقدر صرف اور صرف موت ہی ہے۔
ابھی تک اس سیزن کو نیٹ فلیکس کے سو ملین سے زائد سبسکرائبرز دیکھ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس کی میم اور ٹک ٹاک ویڈیوز کا ایک طوفان امڈ آیا ہے اس کی ایک بڑی وجہ شاید دنیا کے اس معاشی نظام سے انسانوں کی نفرت ہے جس میں امیری اور غریبی کے بیچ کی لکیر بڑھتی جا رہی ہے۔