ناصر اقبال
پاکستان، انڈیا اور افغانستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت، لاقانونیت اور جمہوری قوتوں کی مسلسل ناکامیوں کے پس منظر میں اگر ترقی پسند تحریک کا جائزہ لیا جائے تو ذہن میں ایک مایوس کن صورتحال کی ہی تصویر بنتی ہے جو کہ بڑی جائز اور نارمل بات ہے۔
اس ضمن میں اگلا سوال اٹھتا ہے کہ جنوبی ایشیاء کے علاوہ باقی دنیا میں تحریک کی صورتحال بہتر ہے تو جواب یقینا نفی میں ہی ہے لیکن اتنا بھی نفی میں نہیں کہ ترقی پسندی کو ہی خیر آباد کہہ دیا جائے۔ہمارے کچھ دوستوں کی مایوسیوں کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے کرونا سے امیدیں وابستہ کر لیں کہ وباء کے نتیجے میں ریاستیں تحلیل ہو جائیں گی اور سرمایہ داری کے اندرونی تضادات نکھر کر عیاں ہو ں گے اور عوام کا جم غفیر باغی یا انقلابی ہو کردنیا میں مثبت تبدیلیاں لے آئے گا وغیرہ۔
یہاں جانے پہچانے ترقی پسند دانشور محترم اکبر علی ایم۔اے مرحوم کا ذکر کرنا بھی شاید مناسب ہو گا جن کا ڈیرہ یا آستانہ پہلے لاہور پھر بعد میں گجرات شہر میں منتقل ہوا۔ مرحوم کا علمی کالم روزنامہ پاکستان میں باقاعدگی سے شائع ہوتا۔ ان کے ہر کالم میں اسی بات پر زور ہوتا کہ ”سائنس اور ٹیکنالوجی اس سطح پر پہنچ چکی ہیں کہ وہ انسانی تضادات کو خود کار طریقے سے حل کر دیں گی لہٰذا اب کسی منظم کاوش، پارٹی یا تحریک کی ضرورت نہیں ہے“۔
اپنی کالم نگاری سے ہزاروں طلبہ کو ”متاثر“ کرنے کے بعد مرحوم اپنے آبائی شہر گجرات شفٹ ہوئے اور اپنے آخری وقت تک درس و تدریس کو جاری و ساری اور اپنی بھینسوں کو چارہ ڈالتے رہے۔ہمیں آج اندازہ ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کے اخبار میں ان کا” ترقی پسندانہ کالم” اتنے اہتمام سے کیونکر چھپا کرتا تھا۔ بہرکیف اچھی نیت سے خواب حتیٰ کہ شیخ چلی کے خواب دیکھنے پر بھی کوئی ممانعت نہیں ہونی چاہیے۔
اب ہماری مایوس اور نیم مایوس دوستوں سے گذارش ہے کہ کلی طور پر مایوس ہونے سے پہلے ہمارے اس کالم کو ایک دفعہ غور سے پڑھ لیں اور اگر اس کے بعد بھی مایوسیوں کا غلبہ قائم رہے تو ہم یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ راقم کو اپنے کالم نگاری کے فن اور علم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
مایوسی سوچ کے بند گلی میں داخل ہو جانے کادوسرا نام ہے۔سوچ کے بند گلی میں داخلے کے کچھ اندرونی اور بیرونی عوامل ہو سکتے ہیں۔سرمایہ داری، ریاستیں اور رجعتی و قدامتی سوچ اور سیاست اوران کے زیر اثر میڈیا وغیرہ کوبڑے بیرونی عوامل میں شامل کیا جا سکتا ہے۔بقول لینن” یہ تمام ہمیشہ ترقی پسندی کے خلاف ہی ہوتے ہیں "۔ ویسے ہمارے بعض دوست بسا اوقات ان سے بھی خیر کی امید باندھ لیتے ہیں تو نتیجہ پھر مایوسی میں ہی ہو گا۔کولڈ وار کے زمانے میں یہ تمام ایک ہی صفحہ پر تھے۔
سوویت روس کے انہدام کے فوری بعد سے ہی” بنیاد پرستیوں ” کا آپسی تصادم شروع ہو گیاتھا۔9/11 کا وقوعہ تو اس سلسلے کی صرف ایک کڑی تھا۔آج 2021ء میں دنیا میں جو بھی شورو غوغا اور سیاسی افراتٖفری ہے وہ بھی اسی سلسلے کے تناظر میں ہی ہے۔رجعتی اور قدامتی حلقوں کی سوچ کی نفسیات ہیں کہ یہ کسی مخالف کی موجودگی میں اکھٹے ہو جاتے ہیں اور اگر کسی بھی وجہ سے مخالف سامنے سے ہٹ جائے تو یہ فوری طور پر آپس میں بھڑ جاتے ہیں۔آج دنیا کے حکمران ٹولے جو پیشے کے اعتبار سے سرمایہ دار اور سوچ کے اعتبار سے بنیاد پرست اور قدامت پسند ہیں اور آپس میں دست وگریبان ہیں۔ محلے میں اگر دو اوباش گروہ لڑ پڑیں تو آوازیں اتنی بلند ہوتی ہیں کہ گمان ہونے لگتا ہے جیسے محلے میں کوئی شریف آدمی رہتا ہی نہیں لیکن یہ صرف نظر ی دھوکہ ہوتا ہے۔ہمارے سادہ لوح کامریڈ بعض اوقات اسطرح کے محض فریب نظر سے ہی متاثر ہو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں۔
یہاں ایک اہم سوال اٹھتا ہے کہ حکمران طبقات کے آپسی تضادات کے پیش نظر ترقی پسند تحریک کی کوئی جگہ بن سکتی ہے؟ تو جواب نفی میں ہے۔ منو بھائی مرحوم اسکا جواب اسطرح سے دیتے ہیں:
ہو نئیں جاندا کرنا پیندا اے
عشق سمندر ترنا پیندا اے،
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
تے جیون دے لئی مرنا پیندا اے
بیرونی عوامل پر کتابیں لکھی گئیں اور مزید کتابیں بھی لکھی جا سکتی ہیں۔ ہم مثال کے طور پر یہاں صرف ایک جزو کو ہی مختصراً بیان کر سکتے ہیں۔دوستوں سے عرض ہے کہ ترقی پسند دشمن یا مخالف قوتوں کے پراپوگنڈے پر بالکل کان نہ دھریں، سچ کو جاننے کی کوشش کریں، مخالفین پر نظر رکھیں اور اگر کبھی یہ کوئی اچھی بات کریں تواور زیادہ چوکنے ہو جائیں۔
اب ہم مایوسی کے اندرونی عوامل کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔ ان کی بھی ایک لمبی فہرست ہے، تاریخ، فلسفہ، سائنس کے مطالعہ اور عام زندگی میں مشاہدے کی کمی،ارتقائی نظریات سے چشم پوشی، علمی تجزیات سے عدم دلچسپی،مکالمہ کی روایت سے دوری، کنفیوژن، بے عملی، سازشی نظریات پر زیادہ فکر ی انحصار، زمینی حقائق کے غلط اندازے، موقع پرستی،سائنسی طریقہ کا رکی بجائے یوٹوپین اور روایتی طریقوں پر عمل، منزل و مقصد کی بجائے محض راستوں میں الجھ جاناوغیرہ۔
سادہ الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاسفی علم کی بڑی چھتری کی طرح ہے اور اس علم میں سے جو علم لیبارٹری میں کامیابی پرکھا جائے وہ سائنس کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ایجادات، ٹیکنالوجی اور مشین سازی بعد کے مراحل ہیں۔ انسانی تاریخ میں فلاسفی، سائنس اور ترقی پسند تحریک ساتھ ساتھ چلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
فلاسفی کا تحریری شکل میں باقاعدہ یا ثابت شدہ آغاز 6 سو سال قبل مسیح میں یونان سے ہوتا ہے۔ زبانی کلامی فلسفے کی روایات اس سے بھی بہت قدیم تصور کی جاتی ہیں۔فلسفے کا یہ دوریونان سے ہوتا ہوا 400 ء میں روم میں اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ بنیادی سائنسی و سوشل علوم کے ساتھ سول انجینئرنگ میں ترقی اوربنی اسرائیل کی فرعون کی غلامی سے آزادی، روم میں سپارٹیکس کی غلاموں کی آزادی کے لیے مسلح تحریک و بغاوت اس کے بعد میں حضرت عیسیٰ کی قیادت میں غلاموں کی بغاوت جیسی تحریکیں ورثے میں چھوڑجاتا ہے۔
فلاسفی کے رومن عہد سے اگلے ایک ہزار سال تک دنیا فلاسفی،سائنس و ایجادات اور انسانی حقوق کی تحریکوں سے خالی نظر آتی ہے۔
1500ء سے جدید فلاسفی کا عہد شروع ہوتا ہے، سائنس دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوتی ہے اور ایجادات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اس عہد کی انقلابی ایجادوں میں بھاپ کا انجن ہے جو 1698ء سے 1712ء کے درمیان تیار ہوا۔ڈیزل انجن اور بجلی کے انجن بعد کی باتیں ہیں۔کمپیوٹر کی ایجاد تو ایجادات کی ایک سیریز یا ارتقاء ہے جو 1800 ء سے ابتک جاری ہے۔انسانی فلاح اور حقوق کی تمام تحریکیں بھی اسی دور کی دین ہیں۔پیرس کمیون اور انقلاب فرانس 1789-1799ء جیسی یورشوں کے بعد سویت اور چین جیسے بڑے اور کامیاب انقلابات۔ مختلف علوم میں بے پناہ ترقی جس کا احاطہ کرنا بھی شاید ناممکن ہو۔
تاریخی حوالوں سے ہم نے فلاسفی،سائنس اور ترقی پسندی کے مابین خاص ربط کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ہم ذاتی طور یہی بات سمجھ پائے ہیں کہ علم ترقی پسندتحریک کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ہماری سب سے بڑی امید کی کرن ہی یہی ہے کہ فلسفہ اور سائنس اپنی پوری طاقت سے کھڑے ہیں اور ان پر بظاہر کوئی قدغن بھی نہیں اور جب تک یہ دونوں کھڑے ہیں اسوقت تک ترقی پسندی کو مات نہیں دی جا سکتی۔
آج دنیا میں جو بھی نفسا نفسی نظر آرہی ہے بنیادی طور پرعینیت پسند حکمران طبقات کی بوکھلاہٹ ہے جنہیں سمجھ ہی نہیں آرہا کہ دنیا یا خلق خدا کے حقیقی معاملات کیا ہیں اور انہیں کیسے ڈیل کرنا ہے۔امریکی چاہتے ہوئے بھی افغانستان پر قبضہ برقرار نہ رکھ پائے اور طالبان اقتدار کے لیے بیس سال لڑ کر بھی اب حکومت کرنے سے قاصر ہیں۔
آج تک کی دنیا کا کنٹرول اور مال و دولت عینیت پسندوں کے ہاتھ میں رہا ہے اس کے باوجود اتنی بوکھلاہٹ کیوں؟کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا مقابلہ مادیت سے ہے اور مادیت کا خمیر مادے سے اٹھا ہے۔ عینیت سہاروں پر ہی کھڑی رہ سکتی ہے اور مادے کو اپنا وجود منوانے کے لیے کسی گواہی، ثبوت یا بے ساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ہماری ترقی پسندوں سے یہی گذارش ہے کہ وہ مایوسی کے اندرونی عوامل پر توجہ دیں، انہیں ٹھیک کریں اور یقین رکھیں کہ اس کا م کے لیے کسی بجٹ یا سرمائے کی ضرورت نہیں ہے۔ باقی کا کام سائنس اور فلسفے نے کرنا ہے اور وہ پہلے ہی سے بہت اچھا کر رہے ہیں۔