سبحان عبدالمالک
نسل انسان نے زندہ رہنے کی تگ و دو میں طویل سفر طے کیا، مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے آج اس مقام تک پہنچی، جہاں مادی ترقی کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو یقینا وہ ماضی کے کسی بھی دور سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ انسانی شعور کا مادی ترقی سے تعلق ہمیں یہ ادراک حاصل کرنے میں آسانی فراہم کرتا ہے کہ انسانی شعور بھی ماضی کے انسان کی نسبت، مادی ترقی کی وساطت سے اپنے بلند ترین مقام پر ہے۔
سائنسی ترقی نے ماضی کے رموز کا پردہ فاش کیا، بے شمار معمے، جنہیں صدیوں فلسفیوں کے بزم میں زیر بحث لایا جاتا رہا، کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ جہاں بہت سی دشواریوں کا خاتمہ کیا گیا، بہت سے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا گیا، وہاں دن بہ دن پیچیدگیوں میں مزید اضافہ بھی ہوتا گیا۔ جہاں انسان فطرت کی منہ زور طاقتوں کو سمجھنے، انھیں اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے یا خود کو انکی مناسبت سے ڈھالنے میں کامیاب ہوا، وہاں فطرت کو مسلسل نقصان پہنچانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ جس کی بنیاد پر نئی آفات، وباؤں اور طوفانوں کے لئے بھی راہیں ہموار کی جاتی رہی ہیں۔
آبی و جنگلی حیات پر انسان ایک خطرے کی صورت ایک مدت سے منڈلا رہا ہے۔ دھواں اگلتے ذرائع آمدورفت، کارخانے، انھیں متحرک کرنے کے لئے استعمال ہونیوالی توانائی کے ذرائع اوزون کی تہہ میں شگاف ڈالنے سے لے کر موسمیات میں ہونے والی تبدیلیوں کا موجب بنتے ہیں۔
اگر تیز ترین ترقی کے گزشتہ چند صدیوں کا باقی کی تمام تر انسانی تاریخ سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ان چند صدیوں میں جس قدر ماحولیات کو برباد کیا گیاہے، ماضی کی تمام تر بربادیاں اس سب کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔
اب اسی نسبت سے اگر مجموعی انسانی معیار زندگی پہ بحث کی جائے، جو گزشتہ چند صدیوں میں ماحولیات کی اس درجہ بربادی کی صورت اسے میسر آئی ہے، تو سرمایہ دارانہ مبلغین ہمیں زمین، آسمان کے قلابے ملاتے نظر آئیں گے۔ دل کو موہ لینے والی یہ گفتگو جو سمندر کی گہرائیوں سے آسمان کی وسعتوں تک ہرطرح کے نامیاتی و غیر نامیاتی مادے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتی ہے، سوائے اکثریتی محنت کش طبقے کے، جو اس تمام تر پیداور کی بنیاد ہے۔ اس طبقے کی کار آمد محنت کے بغیر ترقی کی یہ منازل طے کرنا بعید از قیاس ہے۔
ذرائع پیداور میں ہونے والی ترقی جسے محنت کاروں کے اجتماع اور تقسیم محنت نے جلا بخشی تھی، جدید مشینوں کی ایجادات اور ان میں روز بہ روز رونما ہونے والی جدت اور ترقی نے چار چاند لگا دئیے۔ ایک چھت تلے بہت سے مزدوروں کی اجتماعی محنت کے نتیجے میں جاگیرداری کے کھنڈرات سے ابھرنیوالے سرمایہ دارنہ انقلابات سے فیضیاب ہونے والا سرمایہ دارطبقہ، جس نے صنعت میں آنیوالی جدت کے ساتھ ساتھ دولت کے انبار لگائے۔ اس ترقی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی جدت کے باعث گزشتہ دو دہائیوں میں خاصی تیزی نظر آئی ہے۔ سرمایہ داروں کو سستی محنت کی تلاش نے ہجرت پر ضرور مجبور کیا ہے مگرتاحال قدر کی تخلیق کا کوئی متبادل تلاش نہیں کر پائے ہیں۔
لبرل بورژوا معیشت کے پروردہ نام نہاد انسانی حقوق کے نمائندوں، این جی اوز اور اداروں کی طرف سے کارپوریٹ میڈیا پر انسانی حقوق کا واویلا جس قدر شدت اختیار کرتا جاتا ہے۔ اکثریتی انسانی آبادی کے مسائل مزید گھمبیرتا اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ایسے واویلے کا مقصد حقیقی انسانی مسائل سے توجہ ہٹاتے ہوئے فروعی مسائل پر مرکوز کرنے کی سرمایہ دارنہ واردات کے سوا کچھ نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی اینٹوں پہ کھڑا یہ سرمایہ دارانہ نظام جس کے حقیقی تضادات اسکی بنیادوں میں پیوست ہیں یعنی وہ لیبر پروسیس جس کے دوران انسانی محنت کا ایک حصہ نچوڑ لیا جاتا ہے، جسکا متبادل مزدور کو ادا نہیں کیا جاتا، جسے زائد پیداوار کہا جاتا ہے اور اس زائد پیداواریت کی شرح کو برقرار رکھے بغیر سرمایہ داری اپنے آپکو باقی نہیں رکھ سکتی۔ اگر اس بات کو سادہ لفظوں میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو آپ یوں کہہ سکتے ہیں کے انسانی حقوق سلب کئے بغیر سرمایہ داری خود کو زندہ نہیں رکھ سکتی۔ مگر انسانی حقوق کے لبرل بیانئے میں ایسے الفاظ کے داخلے کی قطعاً کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
اگر ہم امیر اور غریب ممالک اور انسانوں کے درمیان پیداہونے والے فرق کے حوالے سے گزشتہ ایک سے ڈیڑھ صدی کے اعداد و شمار پر غور کریں تو یہ حقیقت ہمارے سامنے مزید واضح ہو جائے گی۔ 1820ء میں دنیا کے 20 فیصد غریب ترین آبادی کی آمدن کا 20 فیصد امیر ترین افراد کی آمدن سے فرق 3:1 تھا، جو 1913ء میں 11:1، 1970ء میں 30:1، 1989ء میں 59:1 اور 1997ء میں 87:1 ہو گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غریب ترین افراد کی زندگیاں کیسے ہر گرزتے دن کیساتھ تنگی و دشواری کا شکار ہوتی جاتی ہیں۔ 2003ء میں مجموعی عالمی پیداوار کا تخمینہ 34.5 ٹریلین ڈالر لگایا گیا تھا، جس میں 10.9 ٹریلین ڈالر کی مجموعی داخلی پیداوار کے ساتھ امریکہ کا حصہ 31.6 فیصد بنتا ہے۔ اگر جرمنی اور جاپان کے اعداد و شمار کو اس میں شامل کر لیا جائے تو یہ مجموعی عالمی پیداوار میں 50.4 فیصد حصہ بنتا ہے۔
2020ء کی مجموعی عالمی پیداوار 84.54 ٹریلین ڈالر تھی۔ اس میں امریکہ اور چین کا حصہ بالترتیب 20.94 اور 14.87 ٹریلین ڈالر تھا، جو مجموعی پیداوار کا قریب 42 فیصد بنتا ہے۔ عالمی پیداوار کی بے ہنگم تقسیم غریب اور امیر ممالک اور غریب ملکوں میں آبادی کی غریب اور امیر پرتوں کے اثاثہ جات کی ملکیت کے حجم یا ارتکازمیں بے انتہا فرق کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ جس پر سوال اٹھائے بغیر انسانی حقوق کی باتیں سراب کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کی مڈبھیڑ میں انسانی حقوق کی اصل وجوہات سے پردہ پوشی کی منظم واردت ہے۔ ایک ایسا پیلا آسمان جس نے حقائق کو اپنے دھندلکوں میں چھپا رکھا ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر نہ حقیقی انسانی مسائل سے آشنائی حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی انکے حصول کی حقیقی جدوجہد منظم کی جا سکتی ہے جس کی حتمی منزل سوشلزم ہو۔