فاروق سلہریا
لینن نے کہا تھا کہ اگر کسی نے کارل مارکس کی ’سرمایہ‘، خاص کر پہلا باب، پڑھنی ہے تو اسے چاہئے کہ پہلے ہیگل کی تصنیف ’منطق‘ کا مطالعہ کرے۔
2017ء میں پرنسٹن یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتاب ’Marx’s Inferno: The Political Theory of Capital‘ کے مصنف اسسٹنٹ پروفیسر ولیم کلیئر رابرٹس کا دعویٰ ہے کہ اگر ’سرمایہ‘ کو پڑھنا اور سمجھنا ہے تو اطالوی زبان کے لافانی شاعر دانتے کی شہرہ آفاق تصنیف ’دی ڈیوائن کامیڈی‘ کے پہلے حصے ’جہنم‘ کا مطالعہ ضروری ہے۔
اس میں شک نہیں کہ کارل مارکس فنون لطیفہ میں گہری دلچسپی رکھتا تھا۔ گوئٹے، شیکسپیئر اور ایسکلس مارکس کے پسندیدہ شاعر تھے لیکن، بقول ولیم رابرٹس، دانتے شائد کچھ زیادہ ہی پسند تھا۔
مندرجہ بالا کتاب میں ولیم رابرٹس کا دعویٰ ہے کہ دانتے سے مارکس کا تعارف 1850ء کے لگ بھگ ہوا۔ 4 اپریل 1853ء کو پہلی بار ’نیو یارک ڈیلی ٹربیون‘میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مارکس نے دانتے کا حوالہ دیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ 1859-60ء کے عرصے میں لکھی گئی مارکس کی تحریروں میں دانتے کا حوالہ بہت زیادہ ملتا ہے گو یہ سلسلہ باقی عمر بھی جاری رہا۔
ولیم رابرٹس نے ولیم لیبکنیخت کے حوالے سے لکھا ہے کہ 1850ء کی دہائی میں دانتے کو پڑھنا مارکس کا روز مرہ کا معمول تھا اور یہی نہیں۔ ’دی ڈیوائن کامیڈی‘ کے کئی اقتباسات مارکس کو زبانی یاد تھے جنہیں وہ اٹھتے بیٹھتے دہراتا تھا۔
ولیم رابرٹس کا کہنا ہے کہ ترتیب کے اعتبار سے جس طرح 1848ء کے انقلاب فرانس پر لکھی گئی مارکس کی کتاب ’The Eighteenth Brumaire‘ شیکسپیئر کے معروف کھیل ’ہیملٹ‘ کی طرز پر لکھی گئی، اسی طرح ’سرمایہ‘ (جلد اؤل) کا طرز ترکیب دی ڈیوائن کا میڈی کے پہلے حصے ’جہنم‘ سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔
اس مماثلت کو ولیم رابرٹس نے مندرجہ ذیل شکل میں پیش کیا ہے:
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔