مارکسی تعلیم

مارکسزم تخفیف پسندی نہیں، لامحدودیت کی قائل ہے

فاروق سلہریا

مارکسزم کے مخالف، بالخصوص اکیڈیمک مباحث کے اندر، مارکسزم کو رد کرنے کے لئے دو جانے پہچانے مگر انتہائی بور یت کے مارے ’دلائل‘ استعمال کریں گے۔ اؤل: مارکسزم کس نتیجے پر پہنچے گی، پہلے سے ہی پتہ ہوتا ہے۔ دوم، مارکسزم ہر چیز کو معیشت تک محدود کر دیتی ہے لہٰذا یہ تخفیف پسندی (Reductionism) کا شکار ہو جاتی ہے۔

پہلے نقطے پر آئندہ کبھی بحث کریں گے۔ فی الحال اس بات پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں کہ کیا واقعی مارکسزم معاشی تخفیف پسندی کا شکار ہے؟ یا یہ محض مارکسزم کے مخالفین کا وہ گھسا پٹا بیان ہے جو وہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے جاری کرتے ہیں۔

مختصر جواب: یہ محض مارکسزم کے مخالفین کا وہ گھسا پٹا بیان ہے جو وہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے جاری کرتے ہیں۔

طویل جواب: جب کوئی تجزیہ کرنا ہو یا منظر نامہ بیان کرنا ہو تو مارکسزم ہر سوال، ہر مظہر کو اس کے مجموعی اور کلی انداز میں دیکھتی ہے۔ تاریخ کو سمجھے بغیر کسی سوال کو بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔ متعلقہ مسئلے کے تضادات کو سمجھا جاتا ہے۔ متعلقہ تضادات کو سمجھنے کے لئے متضاد عناصر کی مقدار اور معیار کو جانچا جاتا ہے۔

اس طریقہ کار کو جدلیاتی طریقہ کار کہا جاتا ہے۔

آج کل پاکستان میں بحران چل رہا ہے۔ اس بحران کو سمجھنے کے لئے پاکستان کی سیاسی تاریخ سمجھنا ہو گی۔ سیاسی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ کبھی بھی جمہوری اتفاق رائے قائم نہیں کر سکی۔ دوسری جانب، پاکستانی ریاست کا عسکری کردار اس بات کو یقینی بنائے رکھتا ہے کہ جمہوری قوتیں کمزور رہیں۔ اسی طرح، ہمیں بطور ریاست پاکستان کی تاریخ دیکھنا ہو گی: پاکستانی ریاستی کا کلونیل اور مضافاتی (Periphery) کردار اس بات کی وضاحت پیش کرتا ہے کہ یہ ریاست ایک عسکری ریاست کیوں ہے؟ سوم، ریاست کے مضافاتی کردار (یعنی یہ کہ یہ تیسری دینا کا ایک ملک ہے) کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ریاستوں کے برعکس (جہاں معیشت سیاست پر حاوی ہے) پاکستان جیسی مضافاتی ریاستوں میں سیاست معیشیت پر حاوی ہے۔ حکمران طبقہ اگر سیاست پر گرفت کھو دے تو اس کا معاشی زوال بھی ہو جاتا ہے۔ شام کی مثال سامنے ہے۔ اسد خاندان نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی مگر اقتدار نہیں چھوڑا کیونکہ ان کی ساری دولت بھی کھوہ کھاتے میں چلی جانی تھی۔ قذافی کی مثال بھی دیکھ لیں۔ جوں ہی قذافی خاندان کا اقتدار ختم ہوا، اس کا معاشی عروج بھی ختم ہو گیا۔ اس کلئے کی مدد سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ فوج اقتدار سے کیوں علیحدہ نہیں ہوتی۔

پاکستانی ریاست کے مضافاتی کردار کی مدد سے ہم یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی معیشت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہاں کیوں گروی پڑی ہے۔

گویا پاکستان میں جاری اشرافیہ کی موجودہ لڑائی کو جنرل باجوہ کی ایکسٹنشن، جنرل فیض حمید کی پوسٹنگ یا ٹرانسفر، نواز شریف اور آصف زرداری کی بے اصولیوں یا اس طرح کے سطحی انداز میں نہیں سمجھا جا سکتا۔ ایک جامع تجزئیے کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت ہمیشہ ہوتی ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل مارکسی طریقہ کار سے ہی ممکن ہوتی ہے۔

ایک بات جس سے مارکسزم کے دشمن بہت چڑ کھاتے ہیں وہ یہ ہے کہ معیشت کو اس مارکسی طریقہ کار میں بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ مگراس کے علاوہ چارہ کار بھی کیا ہے؟

ذرا عورت پر جبر اور پدر سری کی مثال ہی لیجئے۔ یہ فریڈرک اینگلز تھے جنہوں نے ”خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز“ لکھی۔ پچھلے دو سو سال سے مارکسزم عورتوں کے حقوق کی ہر جدوجہد میں ہر اؤل کردار ادا کرتی آ رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض مارکس وادی حلقوں نے عورت کی جدوجہد کو طبقے تک محدود کرنے کی کوشش کی مگر تنقیدی مارکسی روایات میں ہمیشہ پدر سری کی بات بھی کی گئی۔ ہاں مگر طبقے کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ ایک عورت جو فیکٹری کی مالک ہے اور فیکٹری میں کام کرنے والی مزدور خواتین کے تمام مفادات سانجھے نہیں ہو سکتے۔ ممکن ہے فیکٹری کی مالک عورت کو جنسی ہراسانی، گھریلو تشدد اور اپنے جینڈر کی وجہ سے، مسلمان ملکوں میں، وراثت کا پوراحق نہ ملے۔ یہاں تک تو بورژوا عورت کے ساتھ متحدہ محاذ بنایا جا سکتا ہے مگر طبقے کی بنیاد پر خواتین بھی تقسیم ہیں اور ان سے آنکھیں کوئی اندھا ہی پھیر سکتا ہے۔ اس لئے ہم پدر سری ہی نہیں، سرمایہ داری بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ بغیر سرمایہ داری ختم کئے برابری ممکن نہیں۔

یہی سوال نسل پرستی کا ہے لیکن پہلے ذرا ان فیشن ایبل پروفیسروں کا ذکر ہو جائے جو کہتے ہیں کہ مارکسزم نے نسل پرستی کو سنجیدہ نہیں لیا۔ انہیں شائد معلوم نہیں کہ کمنٹرن نے تو امریکہ کے سیکشن کو ہدایات دی تھیں کہ وہ سیاہ فام امریکیوں کے لئے علیحدہ ملک کا مطالبہ کریں۔ سیاہ فام امریکی البتہ اس مطالبے کے خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مسئلے کا حل علیحدہ ملک نہیں، ’Integration‘ ہے۔ بے شمار سیاہ فام ممالک میں مارکس وادیوں نے آزادی کی تحریکوں کی قیادت کی۔ چے گویرا افریقہ پہنچ کر لڑ رہا تھا۔ کیوبا کے بغیر امریکہ کی آخری نو آبادی شائد اب تک غلام ہوتی۔ بے شمار اہم ترین سیاہ فام مفکر مارکس وادی تھے اور ان کا خیال تھا کہ بغیر سرمایہ داری کا خاتمہ کئے، نسل پرستی کا خاتمہ ممکن ہیں۔ میلک ایکس کی مشہور کہاوت ہے:

’You can not have capitalism without racism.‘

اگر سیاہ فام کر ووٹ کا حق دے دینے سے (جو بہر حال ایک بڑی کامیابی تھی اور بایاں بازو اس کے لئے متحرک تھا) نسل پرستی ختم نہیں ہوتی۔ بارک اوبامہ امریکہ کا صدر بن گیا لیکن نسل پرستی اپنی جگہ کھڑی ہے۔ سرمایہ داری میں ووٹ کا حق ملنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ سرمایہ دار بھی بن جائیں گے۔

ذرا بات کو ایک اور زاوئیے سے دیکھتے ہیں۔ فرض کیجئے امریکہ کے سیاہ فام سارے کے سارے ارب پتی بن جاتے ہیں۔ کیا ان پر جبر کرنا ممکن ہو گا؟ اگر جواب بالکل واضح ہے تو پھر مارکسزم کے مخالف کس منہ سے طبقے اور سرمائے یا معیشت کی اہمیت سے انکار کرتے ہیں۔

بات سادہ سی ہے جو شروع میں عرض کر دی گئی ہے: تخفیف پسندی کا طعنہ محض مارکسزم کے مخالفین کا وہ گھسا پٹا طعنہ ہے جو وہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے جاری کرتے ہیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔