پاکستان

کیا عدالت بھی آج عمران خا ن کی طرح سرپرائز دے سکتی ہے؟

فاروق سلہریا

سپریم کورٹ نے گزشتہ روز جو فیصلہ دیا ہے اس کے بارے میں روزنامہ جدوجہد کا 5 اپریل کو دیا گیا تناظر قارئین کے لئے ذیل میں دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس تھا۔ اس کا فیصلہ آدھے گھنٹے میں ہو جانا چاہئے تھا۔ آج قومی اسمبلی توڑنے کے صدارتی فیصلے کے خلاف، جس کی بنیاد ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ تھی، سپریم کورٹ میں سماعت کا چوتھا دن ہو گا۔

فیصلے میں تاخیر سے ملک بھر میں نہ صرف افواہوں کا بازار گرم ہے بلکہ سیاسی بحران مزید گہرا ہو گیا ہے۔ بظاہر یہ بہت مشکل ہے کہ سپریم کورٹ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور صدارتی فیصلے کی توثیق کرے یا کوئی ایسا درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرے جیسا کہ وزیر اعظم جونیجو کی برطرفی کے وقت کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی برطرفی اور 1985ء میں بننے والی پارلیمان کو جب فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے تحلیل کیا تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا۔ اس مقدمے کی سماعت جاری تھی کہ جہاز کے حادثے میں جنرل ضیا کی موت نے ساری صورت حال بدل دی۔ ادھر بے نظیر بھٹو کی انتخابی مہم نے کروڑوں لوگوں کو متحرک کر دیا تھا۔ اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ کی مداخلت پر فیصلہ یہ دیا گیا کہ ملک میں جو حالات بن چکے ہیں، ان کے پیش نظر بہتر ہو گا کہ نئے انتخابات کرا دئیے جائیں۔ کیا آج سپریم کورٹ اس طرح کا سرپرائز دے سکتی ہے؟

جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے: ایسا ہونا قرین قیاس نہیں۔

۱۔ اس طرح سپریم کورٹ ایک ایسے غیر آئینی اقدام کی توثیق کرے گی جس کے بارے میں خود عمران خان کی ٹیم کو بھی اندازہ ہے کہ یہ غیر آئینی اقدام ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر تو مسلسل یہ بحث جاری ہے کہ کیا اس اقدام کے بعد عمران الیون پر آئین کے آرٹیکل چھ کا اطلاق ہوتا ہے کہ نہیں۔ ابھی تک کسی ماہر قانون نے یہ رائے نہیں دی کہ اس اقدام کا کسی بھی طرح قانونی، اخلاقی یا آئینی حوالے سے دفاع کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا اقدام جس پر پورے پاکستان میں کم از کم یہ اتفاق موجود ہے کہ وہ غیر آئینی ہے، اسے عدالت آئین کا لبادہ پہنانے میں چاہتے ہوئے بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔

۲۔ ماضی میں سیاسی بحرانوں کے درمیان جب بھی عدالتوں نے متنازعہ فیصلے دئیے (مثلاً نظریہ ضرورت کے تحت فوجی آمریتوں کو جائز قرار دینا یا ذولفقار علی بھٹو شہید کو پھانسی دینے کا فیصلہ) تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ فوج کا دباؤ ہوتا تھا اور مخالف فریق کوئی جرنیل ہوتا تھا۔ اس وقت فوج عمران الیون کے ساتھ نہیں کھڑی۔

۳۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ پارلیمان کے اندر حزب اختلاف اپنی اکثریت ثابت کر چکی ہے۔ ایاز صادق کی قیادت میں ہونے والے اجلاس کی کوئی قانونی حیثیت نہ سہی، لیکن سیاسی طور پر عمران خان کو پارلیمنٹ میں مکمل شکست ہو چکی ہے۔ اس لئے اگر عدالت نے کوئی ایسا فیصلہ دیا جسے جونیجو کیس والے فیصلے سے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے تو حزب اختلاف سڑکوں کا رخ کرے گی۔ بحران مزید گہرا ہو گا۔

۴۔ اگر ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کی توثیق ہوتی ہے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو گا کہ عمران الیون حزب اختلاف کو اگلی انتخابی مہم میں سکہ بند ’غدار‘ دے سکی گی۔ کیا حزب اختلاف اس طر ح کے فیصلے پر خاموش بیٹھے گی؟

سیاست میں کچھ بھی ممکن ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا تجزیہ غلط بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ امکانات پر منحصر ہے۔ سیاسی قوتوں کا کام ہوتا ہے کہ امکانات کا جائزہ لے کر طاقت کے توازن کو اپنے حق میں کیا جائے۔ اس وقت بظاہر تمام امکانات حزب اختلاف کے حق میں ہیں لیکن حزب اختلاف نے گیند عدالت کے کورٹ میں ڈال کر خود کو فی الحال کمزور کر لیا ہے۔

ایک متبادل راستہ بھی تھا۔

عام ہڑتال کی کال دی جاتی۔ یا لوگوں کو موبلائز کیا جاتا۔ حزب اختلاف مسلسل پارلیمان میں براجمان رہتی۔ بڑے شہروں میں دھرنے دئیے جاتے۔ ایک عوامی ایجی ٹیشن کی مدد سے اب تک صورت حال کوبدلا جا سکتا تھا۔

حرب اختلاف نے ایسا کیوں نہیں کیا؟

اس کی ایک وجہ تو ان کا نظریاتی و سیاسی بچگانہ پن ہے۔ یہ قوتیں عوام کی طاقت پر یقین ہی نہیں رکھتیں۔ دوم، یہ اسٹیبلشمنٹ کو مسلسل یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ تابعدار، فرمانبردار اور پر امن یا قابل اعتبار ’اتحادی‘ ہیں جو گڑ بڑ نہیں کرتے۔ سوم، حزب اختلاف بھی عوام کے سڑکوں پر نکلنے سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنا جج، جرنیل یا نوکر شاہی کی دیگر پرتیں۔

اس لئے ازحد ضروری ہے کہ ملک بھر کی حقیقی جمہوری قوتیں ایک ساتھ مل کر کوئی متبادل پلیٹ فارم تشکیل دیں۔ بائیں بازو کے گروہ، ترقی پسند قوم پرست، سماجی تحریکیں، ٹریڈ یونینز، کسان تنظیمیں اور طلبہ کے ترقی پسند گروہ جلد از جلد قومی سطح پر اجتماعات کا بندبست کریں۔ یہ ممکنہ نیا اتحاد عوام کی امیدوں کا مرکز بن سکتا ہے۔

اس بحران کا حل حکمران طبقے کی کسی پرت کے پاس موجود نہیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔