قمرالزماں خاں
ضلع دادو کے قصبے فیض محمد چانڈیو میں ہفتہ کی رات لگنے والی ہولناک آگ چوبیس گھنٹے تک انسانی جانوں، مال مویشی، اجناس، رہائش گاہوں اور دیگر املاک کو جلاکر خاکستر کرتی رہی۔ رات گیارہ بجے آگ لگی اور اگلی شام کو آگ بجانے والی پہلی گاڑی جب گوٹھ پہنچی تو تب وہاں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس کو آتش زدگی سے بچانا مطلوب ہو۔ حکومتی اہلکاروں کے آنے سے قبل 250 سے زائدجاندار ہلاکت کا شکار ہو چکے تھے۔ ان میں بچوں اور خاتون سمیت 9 انسان اورباقی مویشی تھے۔ پست معیار زندگی کے مطابق ہی سہی‘ تپتی دھوپ، آندھی، برسات اور سردی میں سائبان بننے والے سینکڑوں گھر راکھ کا ڈھیر بن چکے تھے۔ اس خوفناک آتش زدگی او ر نقصانات نے دو بنیادی سوالات کو پھر سے ابھار کر پیش کیا ہے۔
1: ریاست اور حکومت کے لئے عام شہریوں‘بالخصوص دیہی آبادی کی جان و مال کی حفاظت ترجیح کے کس نمبر پر ہے؟
2: کسی سنگین حادثے کی صورت میں جس میں جانوں اور املاک کے نقصان کا خدشہ ہو‘ حکومت اور متعلقہ اداروں کا رد عمل‘ درکار وقت میں کیوں نہیں ہوتا؟ شائد یہ سوالات خود کلامی کے درجے پر ہی رہیں کیوں کہ ہمارے ہاں اگر سوالات کئے بھی جائیں تو کسی ادارے یا اتھارٹی کے لئے جوابدہ ہونا ضروری خیال نہیں کیا جاتا۔ پھر یہاں تو سوالات ایسی ریاست اور حکومتوں کے سامنے ہیں، جو ہر حال میں خود کو سماج سے بالا تر خیال کرتی ہیں۔ اس لئے ان سوالات کے جواب بھی ملنے کی امید بہت کم ہی ہے۔
59 سال اوسط عمر کے ساتھ پاکستان عالمی درجہ بندی میں 133 ویں نمبر پر ہے، مگر یہ پیمانہ قدرتی بنیادوں پر وفات کا ہے۔ ابلاغ عامہ کے تمام ذرائع ہر روز غیر فطری اموات سے بھر ے ہوتے ہیں۔ شاہراہوں پر حادثات سرفہرست ہیں۔ شائد جنگوں اور آفات میں اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے پاکستان میں روڈ ایکسی ڈنٹ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ جہاں بیشتر سڑکیں اور شاہراہیں غیر معیار ی اور ٹوٹی پھوٹی ہیں، جن کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں کم چوڑی اور خطرناک سڑکوں کی وجہ سے حادثات ہوتے اور قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ اسی طرح مختلف قسم کے تنازعات میں انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کا قتل قانون اور انصاف کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور تمدنی حالت زار کی زبوں حالی کا اظہار ہے۔ شاہراہوں پر چھینا جھپٹی، راہزنی اور ڈکیتی کے دوران متاثر ہ لوگوں کو ماردیا جانا بھی روزمرہ خبروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ قبائلی لڑائیوں میں گناہ گار اور بے گناہ کا کوئی تصور نہیں ہے، ایک قبیلے کا کوئی بھی شخص خواہ اس کو جھگڑے کا علم بھی نہ ہو صرف قبائلی نسبت کی وجہ سے ماردیا جاتا ہے۔ کچے کے علاقوں، سندھ اور جنوبی پنجاب کے حصوں میں کاروکاری کو مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور بے گناہ خواتین کو مار کر ملزم بنا دیئے جانے والوں سے رشتہ اور جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ سیلاب، زلزلوں اوردیگر قدرتی آفات میں بھی اموات کی شرح پاکستان میں قدرے زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہر روز 1130 بچے غیر معیاری خوراک اور لاعلاجی سے دم توڑ جاتے ہیں۔ بڑوں اور بزرگوں کی روزانہ اموات کے اعداد وشمار الگ سے ہیں۔ غربت اور بھوک کی وجہ سے خود کشیاں معمول ہیں۔ اموات کی یہ داستان اور انسانی زندگی کی ارزانی اکسویں صدی کے اس حصے میں ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ چند سال پیشتر بلدیہ ٹاؤن کراچی کی گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگا کر 189 مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا، وجہ مالکان کی طرف سے بھتہ دینے میں تاخیر تھی۔ اس گھناؤنے جرم کے ملزمان میں سے کچھ گرفتار ہوئے مگر کمزور اور غیر موثر قانون کی وجہ سے حقیقی مجرم آزاد پھر رہے ہیں۔
زندگی کتنی حقیر بنا دی گئی ہے، یہ صورتحال‘ ملک کے طول و عرض میں یکساں ہیں۔ چند دن پہلے بلوچستان کے پاک ایران بارڈر پر ایک ٹرک ڈرائیور کو ماتھے میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو براہ راست فائرنگ کا نشانہ بنا کر اور شہریوں کو قتل کر دیا گیا۔ بارڈر سے آنے والی سینکڑوں گاڑیوں کے ریڈی ایٹرز میں ریت ڈال کر ڈرائیورز کو صحرا کی تپتی دھوپ میں پیدل چھوڑ دیا گیا، جس کی وجہ سے اور اموات کی اطلاعات ہیں۔ ایسے بے شمار واقعات حالیہ دنوں میں ہی شمار کئے جا سکتے ہیں جس میں غیر طبعی اموات کی سیریل نظر آتی ہے۔ تین ماہ پہلے صادق آباد میں انڈھڑ گینگ نے ایک ہی گھر کے 9 افراد کو قتل کر دیا تھا، وہ ملزمان آج تک دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ قتل عام کے دو ہفتے بعد انہوں نے متاثرہ خاندان کی سینکڑوں ایکٹر گنے کی فصل کو آگ لگا کر قانون نافذ کرنیو الے اداروں کو چتاؤنی دی تھی۔ اب بھی وہ علاقے بھر میں بھتہ وصول کر رہے ہیں اور جو بھتہ دینے سے انکاری ہوتا ہے اسکا مالی نقصان کردیتے ہیں۔ سندھ، جنوبی پنجاب، پختون خواہ اور بلوچستان کی دیہی زندگی عہد سے سینکڑوں سال پیچھے نظر آتی ہے۔ حکمران طبقہ‘مکمل طور پر اس صورتحال سے لاتعلق ہے۔ حکمرانوں کے مختلف گروہوں کی اقتدار پر قبضے کی جنگ باقاعدہ ایک کھیل کے مختلف راؤنڈز کی شکل میں سارا سال جاری رہتی ہے۔ حکومتیں بنتی، چلتی، ٹوٹتی اور نئی بنتی رہتی ہیں۔ ہر سال ہزاروں ارب روپے کے بجٹ بنتے ہیں، شرح ترقی کے دعوے کئے جاتے ہیں، مگر دیہی زندگی ”حالت خطرہ“ سے باہر نہیں نکل پاتی۔ وڈیرہ شاہی، سماجی رتبوں کی اونچ نیچ کے نیچے سسکتی زندگی اور تڑپتی موت حکمرانوں کے ایجنڈے میں جگہ حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس سفاک نظام کے بے حس حکمرانوں کا سماج سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ یہاں ایک نئے سیاسی، سماجی، معاشی نظام کی ضرورت ہے جس میں موجودہ متحارب حکمرانوں اور انکے نظام کو ہر حال میں بے دخل کرنا ہو گا۔