نقطہ نظر

عمران خان کو چین، روس اور پاکستان میں اسلاموفوبیا کیوں نظر نہیں آتا؟

فاروق سلہریا

عمران خان کی شکل میں پاکستان کی فسطائیت سے متاثر مڈل کلاس اور ریٹائرڈ فوجیوں کو ایک ٹرمپ نما دیسی ہٹلر مل گیا ہے۔ پی ٹی آئی کوئی فسطائی جماعت نہیں۔ مندرجہ بالا تمام حوالے علامتی ہیں۔ ان حوالوں کی مدد سے فقط تحریک انصاف کو جنم دینے والی سوشل سائیکالوجی (جسے ایرک فرام سے منسوب کیا جاتا ہے) کو سمجھا جا سکتا ہے۔

یہ بحث آنے والے دنوں میں کی جائے گی کہ تحریک انصاف کیوں ایک فاشسٹ جماعت نہیں ہے۔ فی الحال قوم یوتھ کے نئے انقلابی ہیرو کی ایک اور منافقت قارئین کو یاد دلانا مقصود ہے۔

پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کو اسلاموفوبیا کے خلاف ’جدوجہد‘ کی وجہ سے امریکہ نے ’سازش‘ کر کے نکالا۔

پہلے روس کی بات کر لیتے ہیں۔ یہ جھوٹ تو اب تک آشکار ہو ہی چکا ہے کہ عمران خان کے دورہ روس کے دوران روسی تیل کی پاکستان درآمد اس سرکاری دورے کے باہمی طے شدہ ایجنڈے پر ہی نہیں تھی۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسلاموفوبیا کے عالمی چیمپئین کے ایجنڈے پر یہ بات شامل تھی کہ وہ چیچنیا میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام (جینو سائڈ) پر پوتن سے احتجاج کریں گے؟

چیچنیا میں روس، بالخصوص پوتن شاہی آمریت نے جو ظلم ڈھائے وہ سارے مغرب میں مقیم مسلمان تارکین وطن کو درپیش اسلاموفوبیا سے کئی کروڑ گنا زیادہ بھیانک ہیں۔ پورے مغرب میں چند مسلمان ہیٹ کرائم (Hate Crime) کا شکار ہوئے ہوں گے۔ صرف چیچنیا کے دارلحکومت گروزنی کے بارے میں اقوام متحدہ نے کہا تھا ”یہ دنیا کا سب سے تباہ حال شہر ہے“۔ جو حال اب یوکرین کا کیا جا رہا ہے۔ پہلے چیچنیا کا کیا تھا۔ لگ بھگ چالیس سے تیس ہزار چیچن مسلمان اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔ کچھ لوگوں نے عمران خان کے دورہ روس کے دوران ایک ویڈیو بھی شیئر کی جس میں عمران خان چیچنیا میں مظالم پر تنقید کر رہے ہیں مگر ان دنوں وہ اسلاموفوبیا کے اتنے بڑے چیمپئین نہیں تھے۔ جمائمہ سے نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ گجرات کے چوہدری انہیں یہودیوں کا ایجنٹ ثابت کرنے پر مصر تھے۔ اس لئے مغرب بارے سوچ سمجھ کر بات کرتے تھے۔

خیر۔

روس کے حوالے سے عمران خان اور قوم یوتھ سے پوچھنا تھا کہ کیا چیچنیا والے مسلمان امت کا حصہ ہیں؟ کیا مسلمانوں کا روس کے ہاتھوں قتل عام کسی اسلاموفوبک ایجنڈے کا حصہ ہے یا صرف مڈل کلاس ڈائسپورا کو امریکہ برطانیہ میں پیش آنے والے ہیٹ کرائم اور ان کی ”شناخت“ کو لاحق خطرات ہی اسلاموفوبیا ہیں؟

(ویسے ایک مرتبہ پھر پوچھنے میں کوئی حرج نہیں کہ امریکہ یورپ میں رہنے والے یوتھیوں کو اپنی مسلمان شناخت سے اتنا پیار ہے تو یہ وہاں جاتے ہی کیوں ہیں؟ یا سعودی عرب اور ایران کیوں نہیں جاتے؟)

یہی حال چین کے وہیگر مسلمانوں کا ہے۔ وہیگر مسلمان کنسٹریشن کیمپس میں رہ رہے ہیں۔ اتنا برا سلوک یورپی کلونیل ازم نے شائد اپنی نو آبادیات کے ساتھ نہیں کیا ہو گا جتنا برا سلوک ’کمیونسٹ‘ چین نے اپنے شہریوں مگر بالخصوص تبت اور سنکیانگ کے مسلمانوں سے کیا ہے۔ عمران خان سے ایک صحافی نے ان مسلمانوں بارے سوال کیا تھا۔ آپ کو اسلاموفوبیا کے خلاف جہاد کرنے والے سب سے بڑے مجاہد کو جواب یاد ہی ہو گا۔ ان کا کہنا تھا میں اس مسئلے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ ایک شخص جسے دنیا کی ہر بات کا علم ہے۔ جو میں، میں، میں، میں، میں کے علاوہ کچھ نہیں بولتا، مغرب کو مغرب سے اور سنٹرل ایشیا کو سنٹرل ایشیا سے زیادہ جانتا ہے…پہلی دفعہ اسے ایک ایسے مسئلے بارے ذرا بھی علم نہیں تھا جو کچھ سالوں سے گلوبل میڈیا کا سب سے بڑا موضوع بنا ہوا ہے۔

چین کے حوالے سے عمران خان اور قوم یوتھ سے پوچھنا تھا کہ کیا چین والے مسلمان امت کا حصہ ہیں؟ اگر ہیں تو دنیا بھر کے علوم سائنس و سماجیات پر عبور رکھنے والے عمران خان اتنے لا علم کیوں ہیں؟

پوچھنا تو یہ بھی بنتا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے افغانستان سے آنے والے مسلمان مہاجر ین کے لئے طورخم بارڈر کیوں بند کر دیا تھا۔ کیا افغان مسلمان امت کا حصہ نہیں رہے اور پوچھنا تو یہ بھی بنتا ہے کہ پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت بھی مسلمان ہے۔

عمران خان کو مغرب میں رہنے والے مسلمانوں سے روا رکھے جانے والے اسلامو فوبیا کی اتنی فکر ہے تو ان کی حکومت نے لاپتہ کئے جا رہے بلوچوں، پی ٹی ایم کے کارکنوں (خڑ کمر میں قتل عام سمیت) اور رہنماؤں (محسن داوڑ، علی وزیر و دیگر)، اسلام آباد مظاہرہ کرنے والے ٹریڈ یونین کارکنوں، عورت مارچ اورہزارہ برادری کے لوگوں کے ساتھ جو سلوک کیا، کیا وہ اسلامو فوبک نہیں تھا؟

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔