رانا سیف
6 جون 2022ء کے روزمیں نے نادرا کی جانب سے گھر تک شناختی کارڈ پہنچانے کی ذمہ داری پاکستان پوسٹ کی بجائے ٹی سی ایس (Tranazum Courier Service) کو سونپنے کے حوالے سے روزنامہ ’جدوجہد‘میں مضمون لکھا۔ یہ مضمون فاروق طارق، رکن ’جدوجہد‘ ادارتی بورڈ، نے ٹویٹ کیا۔ اس ٹویٹ کے جواب میں نادرا حکام نے مندرجہ ذیل موقف اختیار کیا:
”فاروق طارق صاحب، نادرا نے ڈیڑھ سال قبل پی پی آر اے رولز کے تحت ٹینڈر جاری کیا جو میرٹ پر ٹی سی ایس کو دیا گیا جس نے سب سے کم بولی لگائی۔ پاکستان پوسٹ نے کم بولی نہیں لگائی۔ یہ ٹینڈر ہر 3 سال بعد ہوتا ہے جس میں سب سے کم بولی لگانے والے کو میرٹ کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔
اب آپ ہی بتائیں کہ یہ ٹینڈر کس طرح پی پی آر اے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان پوسٹ کو دیا جاتا؟ آپ سے سے گزارش ہے کہ اس قسم کے منفی پروپیگنڈہ سے گریز کریں اور ٹوئٹ کرنے سے پہلے حقائق کو معلوم ضرور کر لیا کریں۔ شکریہ“
نادرا کا شکریہ کہ انہوں نے اپنا موقف بیان کیا لیکن میں ان کی وضاحت سے ہرگز مطمئن نہ ہوں۔
پہلی بات: راقم نے یہ سوال اٹھایا ہی نہیں کہ بدعنوانی ہوئی یا نہیں۔
ایک عام صارف کی حیثیت سے میرا سوال ہے کہ پاکستان پوسٹ جیسی سستی ترین پوسٹل سروس کے ہوتے ہوئے ایک پرائیویٹ کورئیر کمپنی کی خدمات کیوں حاصل کی گئیں؟
ٹینڈر جاری ہوا یا نہیں اس سے قطع نظر عمومی اصول و روایت یہ ہے کہ اگر کسی سرکاری ادارے کو کسی دوسرے سرکاری ادارے کی خدمات کی ضرورت ہو تو وہ باہمی خط و کتابت کرتے ہیں یا متعلقہ وزارت کی مدد لی جاتی ہے۔ کیا نادرا حکام نے وزارت مواصلات یا محکمہ ڈاک خانہ سے کبھی یا کسی بھی سطح پر رابطہ کیا؟ کیا نادرا حکام اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ وہ سرکاری ڈیٹا ایک نجی ادارے کے حوالے کر رہے ہیں؟
ملک کو اس وقت شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے لیکن نادرا نے پاکستان پوسٹ یعنی براہ راست ملکی خزانہ کو فائدہ پہنچانے کی بجائے ایک نجی کمپنی کا انتخاب کیوں کیا؟
حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان پوسٹ آج بھی ٹی سی ایس کی نسبت کہیں زیادہ کم نرخوں پر ڈاک عام صارف کی دہلیز تک پہنچاتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں آئے روز یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان پوسٹ مسلسل خسارہ کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک طرف ملک معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے تو دوسری جانب ایک سرکاری ادارہ قومی خزانے کو اس انداز میں نقصان پہنچائے تو کیا اس عمل کی کوئی اخلاقی توجیح پیش کی جا سکتی ہے؟
جب حکومتی ادارے ہی اپنے ادارے پر اعتماد نہ کریں تو اس قسم کے خسارے میں چلنے اداروں کو کیسے اپنے پاوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے؟ بطور شہری میں نادرا حکام سے یہ سوال پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ شناختی کارڈ میرے گھر پر پہنچانے کے لئے مجھ سے پاکستان پوسٹ کی نسبت زیادہ رقم کیوں کس وجہ سے لی گئی؟
اس ساری بحث کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ پاکستان پوسٹ کی بجائے نجی کمپنی کو ٹھیکہ دینے کا مطلب پاکستان کے ایسے مزدوروں پر حملہ ہے جو نہ صرف محفوظ نوکری کرتے تھے بلکہ ٹریڈ یونین میں منظم تھے۔ ڈاک ملازموں کی پہلی یونین کے صدر فیض احمد فیض تھے۔ یہاں یونین اور مزاحمت کی پرانی روایت موجود ہے۔ پھر نجکاری کا دور شروع ہوا۔
اس عمل کے نتیجے میں پاکستان پوسٹ اس وقت فنڈز کی کمی کا شکار ہے۔ اس میں کام کرنے والے مزدور کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ ٹریڈ یونین کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
پاکستان پوسٹ جیسے ادارے کی نجکاری کرنے اور اس میں کام کرنے والے مزدور کو بے روزگار کرنے کے لئے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس قسم کے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں کہ عوام ان اداروں سے بیزاری کا اظہار کریں جبکہ میں نادرا حکام کو اس حوالے سے براہ راست ذمہ دار سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے ہی قومی ادارے کو نظرانداز کر کے نہ صرف ملک کی معاشی حالت کو کمزور کرنے بلکہ مزدور دشمنی کا بھی مظاہرہ کررہے ہیں۔
نادرا سمیت وہ تمام محکمے جو سرکاری محکموں کے ہوتے ہوئے کسی بھی قسم کے نجی اداروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ نہ صرف ریاست پاکستان بلکہ ہزاروں محنت کش مزدور پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ملکی سالمیت و استحکام کو کمزور بنانے کا سبب بن رہے ہیں۔
آخر میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیا نادرہ نے ٹینڈر میں یہ شرط شامل کی تھی کہ ٹینڈر میں شامل ہونے والی کمپنیاں شناختی کارڈ گھر تک پہنچانے کے لئے اپنا نرخ پاکستان پوسٹ سے کم رکھیں گی؟