فاروق سلہریا
ڈئیر مولانا!
پچھلے بیس سال میں کم از کم دو دفعہ پاکستان میں سیلاب اور زلزلوں کی شکل میں ایسی آفات ٹوٹیں جنہیں عالمی سطح پر اس صدی کی دو بڑی آفات قرار دیا گیا۔ حکمرانوں کی ماحول دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ، بدقسمتی سے، سیلاب اور خشک سالی تو اب معمول کی بات بن چکے ہیں۔ ایسی کوئی بھی آفت آتی ہے تو آپ اور آپ کے ہمنوا ایسی آفات کوعذاب الٰہی قرار دے کر اپنا مالی و سیاسی کاروبار چمکانا شروع کر دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے پڑوسی ملک افغانستان میں تین روز قبل جو زلزلہ آیا اس میں ہزار کے لگ بھگ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ ویسے مولانا! لوگ زلزلے یا سیلاب سے نہیں مرتے۔ لوگ گرمی یا سردی سے نہیں مرتے۔ لوگ اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ پکتیکا میں بھی افغان بہن بھائی اور بچے زلزلے کا شکار نہیں ہوئے بلکہ طالبان، مجاہدین اور ان کے پاکستانی سرپرستوں کی پھیلائی ہوئی چالیس سالہ دہشت گردی و وحشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ اس وحشت میں امریکہ، سوویت روس، یورپ اور امیر عرب ممالک کا ہاتھ بھی ہے لیکن شائد سب سے برا کردار ان’حکمرانوں‘ نے ادا کیا ہے جن کی آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے حفاظت کی دعائیں آپ آن اسکرین مانگتے ہیں۔
مجھے یاد ہے جب بھی کوئی زلزلہ یا سیلاب آیا مولوی حضرات نے شور مچایا کہ اس کی وجہ فحاشی و عریانی ہے۔ ایک طرف آپ کے کسی بھائی بند نے کہا کہ زلزلے لڑکیوں کے جینز پہننے کی وجہ سے آ رہے ہیں تو دوسری طرف آپ نے اعلان کیا کہ کو ایجوکیشن کی وجہ سے معاشرے پر عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ ہر آفت کے بعد، آپ اور آپ کے بھائی بندے یہ اعلان بھی کرتے تھے کہ ملک میں سودی نظام اور غیر شرعی حکومتوں کی وجہ سے عذاب آ رہے ہیں۔
مولانا! عرض محض اتنا کرنا تھا کہ سال بھر ہوا، کابل میں ’فتح مکہ‘ حاصل ہوئے۔ طالبان نے جس قسم کی شریعت وہاں لاگو کر رکھی ہے، یقین کیجئے آپ جیسا متقی بھی وہاں رہنا گوارا نہ کرے (ویسے کاش ’فتح مکہ‘ کے بعدآپ نے ہجرت والی سنت پر بھی عمل کیا ہوتا)۔
اسی طرح ’فتح مکہ‘ کے بعد نہ تو لڑکیاں جینز پہن سکتی ہیں نہ سکول کالج جا سکتی ہیں۔ کو ایجوکیشن تو دور کی بات۔ آپ سے صرف یہ معلوم کرنا تھا کہ افغانستان پر اب عذاب کیوں نازل ہوا ہے؟
’یادش بخیر‘: پچھلی دفعہ جب طالبان کابل پر مسلط کئے گئے تھے تو ان کے چار سالہ دور میں کابل میں برفباری تو دور کی بات، بارش تک نہیں ہوئی۔ چار سال بعد کابل کی پہلی برفباری ان کی اقتدار سے رخصتی کے بعد ہوئی تھی۔
جواب کا منتظر
ایک ’لبرل فاشسٹ‘
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔