قمر الزماں خان
مارکس نے جدید ذرائع پیداوار پر محنت کشوں کے کنٹرول سے قلت اور مانگ ختم کرنے کی بات کی تھی۔ اس کا مخاطب ’عالمی مزدور‘ بطور ’طبقہ‘ تھا نہ کہ کوئی ایک ملک یا خطہ یا اس کے رہنے والے لوگ۔ مارکس نے ہمیشہ جدید پیدواری ذرائع پر توجہ دی تھی۔ اس نے نہ کبھی روس کے متعلق کوئی پیش گوئی کی تھی نہ روس میں یعنی فقط ایک ملک میں سرمایہ داری کی شکست کو نسل انسان کا مقدر قرار دیا تھا۔ مارکس کا نعرہ اور نظریات ہی دنیا بھر کے محنت کشوں کے لئے ہیں، وہ ایک ملک، ایک قوم، ایک خطے یا ایک نسل کی بات ہی نہیں کرتا، بلکہ دنیا بھر کے وسائل کی دنیا بھر کے (99 فیصد) محنت کشوں کی مشترکہ ملکیت کی بات کرتا ہے۔ مارکس کے نظریات واضح کرتے ہیں کہ عہد جدید کی سرمایہ داری نے محنت کشوں کے ذریعے نسل انسان کے لئے وہ تمام وسائل مہیا یا ایکسپوز کر دیئے ہیں، اب صرف پیداوار کی وجوہات بدلنے کی ضرورت ہے، اس کے لئے دنیا بھر کے محنت کشوں کو وسائل کو اپنے کنٹرول میں لینا ہو گا۔
ان وسائل پر ذاتی ملکیت اور پیداوار برائے منافع کی حاکمیت کا خاتمہ کر کے ’ضروریات کی تکمیل کے لئے پیداوار‘ کے تصور کو حقیقت میں بدل کر دنیا کو یکسر بدلا جائے گا۔ جس سے دنیا بھر سے غربت، جہالت، لا علاجی اور مانگ کا خاتمہ کر کے دنیا کو ایک ایسی جنت میں بدلا جا سکتا ہے جس کا تصور تک بھی ماضی کے عینیت پسند نظریات کے پاس نہیں ہے۔ ماضی کے نظریات کی چشم تصور محدود تر تھی اور ان کا تصور بہشت بھی غریبانہ اور غیر حقیقی خیالوں پر مشتمل تھا۔ مگر ماضی کے خیال پرستانہ تصورات انسانی زندگی کو کچھ دینے سے حتیٰ کہ وعدہ یا تصور دینے سے بھی قاصر ہے ان کے پاس چونکہ زندگی کا نہ بہتر تصور ہے نہ بہتر بنانے کا راستہ ہے اس لئے وہ ترغیبات کو بھی بعد از موت کے لئے واضع کرتے ہیں۔ جب کہ انسان کو (تھوڑا یا بہت) جو بھی چاہئے اسی زندگی کے لئے درکار ہے۔ عقاید کے ماتحت کار ہائے جہاں میں بالا دست طبقے کو محنت کشوں کے استحصال مسلسل کی اجازت بھی ہے، منافع اور ارتکاز دولت کی راہ میں کوئی قانونی بھی نہیں ہے۔ وجہ ذاتی ملکیت کو برقرار رکھنا ہے۔ یہی سرمایہ داری کر رہی ہے۔ یہاں ’خیال پرستی‘ اور سرمایہ داری ایک ہی جگہ کھڑے ہیں۔ ماضی کے نظاموں، سماجوں، استحصال اور بربریت سے اخذ ’نئے بندوبست‘ جن کو عقائد کے ورق سے چھپایا گیا تھا، بھی انفرادی غلام بنانے اور رکھنے کی دستاویزی اجازت رکھتے ہیں جب کہ سرمایہ داری پوری نسل انسانی کو غلام بنانے پر مصر ہے۔ یہاں سرمایہ داری اور خیال پرستی میں چنداں فرق نہیں بچتا۔ جب کہ مارکس ازم انسان کی ان آزادیوں کا بھی داعی ہے جس کا ادراک تک آج کا مفلوج اور محکوم انسان نہیں رکھتا۔ مارکس ازم کی اے بی سی یہ ہے کہ جب تک انسان محنت کی غلامی سے آزاد نہیں ہو جاتا تب تک اس کی دیگر (صنفی، قومی، مذہبی، ثقافتی) آزادیوں کا راستہ ہموار نہیں ہو گا۔
اب آ جاتے ہیں سوویت یونین کی طرف، یہ معلوم انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب ہے جس نے ثابت کیا کہ مفلوک الحال مزدور اور کسان نہ صرف طاقت ور سرمایہ دارانہ ریاست اور حکمران طبقے کو شکست دے سکتا ہے اور شہنشاہوں، نوابوں، جاگیرداروں اور حاکموں کی بجائے مزدور نہ صرف ریاست کا نظام و انصرام چلا سکتے ہیں بلکہ ایک غریب ترین پسماندہ ملک کو جدید ترین ملک اور سپر پاور میں بدل سکتے ہیں۔ اس ضمن میں بہت بڑی حاصلات کی طویل فہرست اور تفصیلات ہیں جن کے متعلق ضخیم کتب موجود ہیں لہٰذا ان کا ذکر یہاں ممکن نہیں ہے۔ جہاں تک روس کے انقلاب کی زوال پذیری کا تعلق ہے تو اس کی تمام تر وجوہات اور ممکنہ نتائج کی نشاندہی خود اس انقلاب کے معماروں نے ہی کر دی تھی۔ وہ بمواضع طور پر سمجھتے تھے کہ کمزور ترین اور پسماندہ روس پر چہار اطراف سے سامراجی (جنگوں، ناکہ بندی اور پراپیگنڈہ کی شکل میں) حملوں کا دفاع جرمنی و جدید یورپین ممالک میں سوشلسٹ تحریکوں کی کامیابی اور سوویت یونین کی پیش رفت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اکیلے روس میں سوشلزم کا تنہا رہ کر دم توڑ جانا انقلاب کے قائدین کو واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔ چنانچہ جو کچھ بھی ہوا یہ قطعی طور پر انہونا نہیں تھا۔ جب ہم تفصیلات میں جائیں گے تو یہ ریاضی کے اصولوں کی طرح واضح ہوتا جائے گا کہ سوویت انقلاب جو کہ سوشلزم کی ایک مسخ شدہ شکل تھی وہ کیونکر برقرار نہ رہ سکا۔ مگر اس کے باوجود اتنے مختصر عرصہ میں ایسی بے نظیر ترقی صرف منصوبہ بند معیشت (سوشلسٹ نظام معیشت) کے ذریعے ہی ممکن تھی۔ سوویت یونین کا انہدام تاریخ کے خاتمے کا اعلان نہیں بلکہ طبقاتی جدوجہد کی افسر شاہی کے مصالحانہ طوق کے بغیر نئی استواری کا موقع ہے۔
سوشلزم کا وجود تب تک رہے گا جب تک طبقات موجود ہیں چنانچہ روس میں انقلاب کے نہ رہنے کو سوشلزم کی شکست قرار دینا درست تجزیہ نہیں ہے بلکہ ماضی کے سوشلزم مخالف پراپیگنڈے کی تجدید ہے۔ اسی طرح اس کو مارکس ازم کا جنازہ قرار دینا بالکل لاعلمی اور سطحی مخاصمانہ نعرہ بازی ہے۔
صرف تخیل پر مبنی ’مقدس خیالات‘ تغیر کا شکار نہیں ہوتے جب کہ انسانوں کی اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے وضع نظریات، طریقہ کار، اصول اور حکمت عملیاں سامنے موجود ’تبدل پذیر معروض‘ کے مطابق ترقی کرتی رہتی ہیں۔ ایسا کوئی قانون اور ضابطہ جو کبھی بدلتے زمانوں کے مطابق خود کو نہیں بدل سکتا ایک وقت کے بعد اس کے اسیر و متاثرین خود کو (چاہے جتنی بھی تاخیر ہو) اس سے الگ کر لیتے ہیں۔ مارکس ازم کا انحصار ہی حرکت، تبدیلیوں، تضادات پر تناظر بنانے پر ہے۔ مادیت، حقیقت ہے اور باقی سب تصورات اور قیاس۔ لہٰذا صاحب عقل و دانش ہوائی قلعوں، دعوؤں، خوابوں اور غیر حقیقی تاویلات کی بجائے ٹھوس مادی مظاہر و عوامل کو موضوع بنا کر آگے بڑھے ہیں اور دنیا کی شکل بدل کر رکھ دی ہے۔ قصوں کہانیوں والے سماج آج بھی امازون کے جنگلوں یا پھر افغانستان کے پہاڑوں میں جدید تہذیب سے ہزاروں سال پیچھے پائے جاتے ہیں۔ ماضی قدیم کی تاریخ و ثقافت کے اوپر شاہ ایران کی دی ہوئی جدید مغربی تہذیب کو اگر ایرانی ملائیت کے پاؤں کے نیچے سے نکال لیا جائے تو یہ بھی سینکڑوں سال پہلے والے حالات و مشکلات میں کھسک کر پہنچ جائیں گے۔
دنیا کو مادی بنیادوں ہر ہی بدلا جا سکتا ہے جو زندہ انسانوں کی خواہش اور ضرورت ہے۔ تاریخ کا سفر، نظاموں کا مطالعہ، سماجوں کی ہیئت واضح کرتی ہے کہ انسانی آزادی کے بڑے اہداف کے حصول کے لئے سرمائے کے ساتھ سماجی غلامی اور ماضی کی توہم پرستانہ خیالات کے غلبے سے چھٹکارا لازم ہے۔ مارکس کی خصوصیت یہ نہیں کہ اس نے اپنی پٹاری سے کوئی نیا شعبدہ نکال دکھایا ہے۔ اؤل مارکس نے انسانی سماج کے ارتقا کی سائنسی جانچ کرتے ہوئے اس میں موجود ظلم، نا انصافی، جبر اور محنت کو لوٹ لئے جانے کے عمل کو سیدھے لفظوں سے بیان کر دیا ہے۔ انسانی تاریخ کو قصے کہانیوں کی بجائے ذرائع پیداوار اور پیداواری رشتوں کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوم اس نے جدید سماج کو بدلنے کے طریقہ کار کی نشاندہی کی ہے۔ کارل مارکس نے طبقوں کی تشکیل اور ان کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے سماجوں پر اثرات کی تشریح کی ہے۔ مارکس نے انسانی محنت کی کرشمہ سازیوں اور پھر اس محنت کو ہتھیانے کے عمل کی طویل وضاحت کی ہے۔ اس نے ظالم غاصب طبقے کے قریبی حلیفوں کو بھی بے نقاب کیا ہے جو مختلف قسم کے تقدسات، روایات اور تعصبات کے لبادوں میں عام اذہان کو مفلوج کر کے استحصالی طبقات کو کھل کھیلنے کے مواقع مہیا کرتے ہیں۔ مارکس (جاگیروں، فیکٹریوں، بینکوں، انشورنس و دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں و دیگر اشکال پر مشتمل) ذاتی ملکیت کو مٹانے کی بات کرتا ہے۔ وہ دلائل سے ثابت کرتا ہے کہ انسانی محنت اور قدرتی وسائل سے اس دنیا کو قلت اور محرومی سے پاک کر کے دنیا کو اشیا ضرورت کی بہتات بھی مہیا کی جا سکتی ہے اور انسان کے گلے سے 12/18 گھنٹے کام کا طوق اتار کر اس کو زندگی انجوائے کرنے کے لئے وسیع وقت، وسائل، لوازمات اور ماحول مہیا کیا جا سکتا ہے۔ مارکس کے نظریات موجود دور ظلمت کو ختم کر کے آنے والے بہتر انسانی مستقبل کے متعلق ہیں۔ ذاتی ملکیت، منافع اور شرح منافع ہی وہ وجوہات ہیں جن پر قحط سے جنگوں تک کو استوار کیا جاتا ہے۔ مارکس کہتا ہے کہ اگر تمام دنیا کے وسائل تمام دنیا کے انسانوں کے لئے یکساں مہیا کر دیئے جائیں تو پھر انفرادی یا اجتماعی لوٹ مار، قبضہ، قتل، ہیرا پھیری، جھوٹ، دھوکہ دہی اور زبردستی کی گنجائش ہی ختم ہو جاتی ہے۔ وسائل پر یکساں دسترس سے صنفی، قومی، علاقائی، نسلی غلامی کی نہ ضرورت رہتی ہے نہ یہ ممکن نہیں رہتی ہے۔ لہٰذا اس زمین کو ایک بارڈر سے پاک دنیا کی ضرورت ہے جو استحصال سے پاک نسل انسان کو بہتر تخلیق کے لئے وقت، تعلیم، وسائل اور ماحول مہیا کرے۔ اس ماحول کی تشکیل کا آغاز سرمایہ داری کے خاتمے سے ہوگا اور تابناک مستقبل کے نظام کو سوشلزم کے تحت ہی استوار کیا جانا ممکن ہے۔