پہلی قسط یہاں پڑھی جا سکتی ہے۔
لیون ٹراٹسکی
ترجمہ: فاروق سلہریا
لیون ٹراٹسکی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ولادیمیر لینن کے ہمراہ انقلاب روس کی قیادت کرنے والے وہ دوسرے اہم ترین رہنما تھے۔ انقلاب کے بعد وہ سرخ فوج کے سربراہ رہے۔ ٹراٹسکی نے بے شمار ثقافتی و سیاسی سوالات پر سوشلسٹ نظریہ دان کے طور پر لکھا۔ ان کے دوست انہیں ’قلم‘ کہہ کر پکارتے کیونکہ وہ لکھنے پر ملکہ رکھتے تھے۔ ٹراٹسکی کا شمار بیسویں صدی کے بہترین دماغوں اور نظریہ سازوں میں ہوتا ہے۔ ان کا زیر نظر طویل مضمون دراصل میکس آڈلر کے ایک کتابچے پر تبصرہ تھا۔ کتابچہ اور ٹراٹسکی کا تبصرہ، دونوں 1910ء میں شائع ہوئے۔ میکس آڈلر آسٹرین سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان اخبار کے مدیر تھے۔ ان کا کتابچہ ویانا سے شائع ہوا۔ ٹراٹسکی کا تبصرہ سینٹ پیٹرز برگ کے ایک اخبار نے روسی زبان میں شائع کیا۔ مندرجہ ذیل ترجمہ انگریزی زبان سے کیا گیا ہے۔ انگریزی ترجمے میں شامل مترجم برائن پیرس کی وضاحتوں کو سرخ رنگ میں ہائی لائٹ کیا گیا ہے اور یہ مضمون تین اقساط میں شائع کیا جائے گا: مدیر
آڈلر کا یہ تجزیہ تو بالکل درست ہے کہ دانشور طبقے کی اجتماعیت کے لئے حمایت انہیں فوری مادی فوائد دینے کی بنیاد پر حاصل نہیں کی جا سکتی البتہ اس تجزئے سے یہ بھی نہیں پتہ چلتا کہ کیا کسی صورت دانشور طبقے کی حمایت حاصل کر نا کسی طور ممکن ہے بھی سہی۔ نہ ہی آڈلر کے تجزئے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دانشور طبقے کے مادی مفادات اور طبقاتی بندھن ان ثقافتی و تاریخی امکانات سے زیادہ اہم نہیں جو سوشلزم پیش کرتا ہے۔
اگر ہم دانشورطبقے کے اس حصے کی بات نہ کریں جو براۂ راست محنت کش طبقے کی خدمت کرتا ہے مثلاً مزدوروں کے وکیل یا ڈاکٹر وغیرہ (یہ وہ حصہ ہے جو دانشور طبقے کے اس حصے کی نمائندگی کرتا ہے جو بہت زیادہ قابل نہیں گردانا جاتا) تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دانشور طبقے کا اہم ترین اور موثر ترین حصے کا انحصار صنعتی منافع، جائداد سے حاصل ہونے والے کرائے یا ریاستی بجٹ پر ہوتا ہے۔ یوں اس حصے کا براۂ راست یا بلا واسطہ انحصار سرمایہ دار طبقے یا سرمایہ دار ریاست پر ہوتا ہے۔
سرمایہ دار طبقے پر اس مادی انحصار کا کیا مطلب یہ ہے کہ دانشور سرمایہ دار مخالف حلقوں کی سیاسی سرگرمی میں توحصہ نہیں لے سکتے مگر وہ اس طبقے سے روحانی آزادی حاصل کر سکتے ہیں جو ان کو روزگار فراہم کرتا ہے؟ دراصل ایسا نہیں ہے۔ دانشور طبقے کا تو کام ہی ”روحانی“ نوعیت کا ہے لہٰذا دانشور طبقہ صاحب حیثیت طبقے سے ایک روحانی تعلق قائم کر لیتا ہے۔ انتظامی امور چلانے والے فیکٹری مینیجرز یا انجینئرز اور ان کے ماتحت کام کرنے والے مزدور مسلسل ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتے ہیں۔ مزدوروں کے مقابلے پر مینیجرز یا انجینئرز کو سرمایہ دارانہ مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان مینیجرز یا انجینئرزکا کام ان کی سوچ اور رائے کو اپنے تابع بنا لیتا ہے۔ اپنے کام کی آزادانہ نیچر کے با وصف، ڈاکٹرز اور وکیل مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے کلائنٹ کے ساتھ نفسیاتی رابطے میں ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ ایک الیکٹریشن دن رات وزیروں بینکاروں اور ان کی رکھیلوں کے دفاتر میں وائرنگ کرتا رہے مگر اپنے آپ میں مگن رہے۔ ڈاکٹر کا معاملہ الگ ہے۔ اسے اپنی روح اور الفاظ میں وہ تال تلاش کرنی ہو گی جو ان لوگوں کے جذبات اور عادات سے میل رکھتی ہو۔ مزید یہ کہ اس طرح کا رابطہ بورژوا معاشرے کی اوپر والی پرتوں میں ہی ضروری نہیں۔ لندن میں عورتوں کے لئے ووٹ کے حق کے لئے لڑنے والے ایک ایسے وکیل کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو ان کے مقصد کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہو۔ ایک ڈاکٹر جو برلن میں فوجی افسروں کی بیویوں کا علاج کرتا ہے یا ویانا میں ”کرسچین سوشل“ دکانداروں کی بیویوں کا معالج ہو، ایک وکیل جو ان کے والدین، بھائیوں یا شوہروں کے معاملات کا خیال رکھتا ہو…اس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اجتماعیت کی جانب سے پیش کئے جانے والے ثقافتی امکانات پر زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کرے۔ یہی بات ہم لکھاریوں، آرٹسٹوں، مجسمہ سازوں،فنکاروں…براۂ راست نہ سہی…کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ لوگ دوسرے لوگوں کے سامنے اپنے فن یا اپنی شخصیت پیش کرتے ہیں۔ یوں ان کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ان کے فن کو پسند کیا جا رہا ہے اور ان کے فن کے لئے پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح بلا واسطہ یا بالواسطہ وہ اپنے فن کو اسی راکھشش کے ہاں گروی رکھ دیتے ہیں جس کو وہ انتہائی ہتک سے دیکھتے ہیں اور وہ راکھشش ہے بورژوا ہجوم۔ جرمنی کے ”نوجوان“ دبستانِ ادبا کے ساتھ جو ہوا…اس کی قیادت پہلے ہی سکڑتی جا رہی ہے…اس بات کی گواہی دیتا ہے۔
گورکی کی مثال، جس کی سمجھ اسی صورت آ سکتی ہے اگر اس عہد کے حالات کو سمجھا جائے اور اس مثال سے بھی مندرجہ بالا اصول کی صداقت واضح ہوتی ہے۔ اگر گورکی دانشور طبقے کی غیر انقلابی زوال پذیری کا شکار نہیں بنا تو گورکی کواس کی قیمت یہ چکانی پڑی کہ اسے اس کی مقبولیت سے محروم کر دیا گیا۔
یوں ایک مرتبہ پھر ذہنی محنت اور جسمانی محنت کے حالاتِ کار کا فرق واضح ہوتا ہے۔ گو فیکٹری مزدوری میں مزدور کا زورِ بازو گروی پڑا ہوتا ہے اور اس کا بدن تھک کے چور ہو جاتا ہے مگر فیکٹری کا کام مزدور کے ذہن کو اپنا تابع نہیں بناتا۔ ایسی کوئی بھی کوشش چاہے وہ روس میں ہوئی یا سوئٹزرلینڈ میں، ناکام رہی۔
اس کے برعکس ذہنی مشقت کرنے والا مزدور جسمانی لحاظ سے کہیں آزاد ہوتا ہے۔ ادیب کو ہوٹر کی آواز کے ساتھ نہیں اٹھنا پڑتا۔ ڈاکٹر کے سر پر کوئی سپر وائزر نہیں کھڑا ہوتا۔ وکیل عدالت سے جانے لگے تو اس کی جیبیں نہیں ٹٹولی جاتیں۔ ان آزادیوں کے بدلے البتہ ذہنی محنت کرنے والے کارکن کو اپنی قوت ِمحنت اور زور بازو ہی نہیں، پوری شخصیت بیچنی پڑتی ہے۔ یہ عمل کسی خوف کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایمانداری کے نتیجے میں کرنا پڑتا ہے۔
نتیجتاً: ان لوگوں کو نظر بھی نہیں آتا اور وہ دیکھنا بھی نہیں چاہتے کہ جو کوٹ انہوں نے پہن رکھا ہے وہ ایک قیدی کی وردی سے مختلف نہیں۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ ان کا کوٹ ذرا بہتر سلا ہوتا ہے۔