فاروق سلہریا
ڈاکٹر سعید کا تعلق ایران سے ہے مگر وہ لندن میں مقیم میڈیا سکالر ہیں۔ انہوں نے سکول آف اورینٹیل اینڈ افریقن اسٹڈیز (سواس) سے میڈیا میں پی ایچ ڈی کی۔ وہ سواس، انسٹی ٹیوٹ آف اسماعیلی اسٹڈیز اور روہیمپٹن یونیورسٹی میں پڑھا چکے ہیں۔ ’دی پالیٹکس آف ایرانین سینما‘ کے مصنف ہیں اور ’دی برٹش جرنل آف مڈل ایسٹرن اسٹڈیز‘کے ایسوسی ایٹ مدیر ہیں۔
روزنامہ ’جدوجہد‘کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے ایران میں جاری عوامی تحریک اور عورت انقلاب بارے بات چیت کی جو نذر قارئین ہے:
حال ہی میں یہ خبریں منظر عام پر آئی ہیں کہ ایران اپنی اخلاقی پولیس کو ختم کر رہا ہے۔ فیس بک کی ایک پوسٹ میں آپ نے اس خبر کی صداقت پر سوال اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ براۂ کرم زمینی صورتحال کی وضاحت کریں۔
ڈاکٹر سعید زیدآبادی نژاد: جیسا کہ میں نے اپنی پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’(نام نہاد) اخلاقی پولیس‘ کو ختم کرنے کی اطلاع تصدیق شدہ خبر نہیں تھی، اور میری پوسٹ کے بعد اسلامی جمہوریہ (ایرانی حکومت) نے اس کی تردید کی تھی۔ میرا نقطہ یہ تھا کہ اگر اس طرح کا کوئی تصدیق شدہ اعلان ہو بھی جائے تو یہ حقیقی تبدیلی نہیں ہو گی۔
ایران میں لازمی حجاب ایک قانون ہے اور جیسا کہ میرے اپنے خاندان کے افراد سمیت بہت سے لوگوں کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سی تنظیموں، مثلاً پاسداران انقلاب (آئی آر جی سی)، بیسج اور باقاعدہ پولیس فورس اور یہاں تک کہ حکومت کے عام پر جوش حامیوں، کے ذریعے سے حجاب نافذ کیا جاتا ہے۔ اس لئے ایک مخصوص تنظیم سے جان چھڑانا بے معنی ہے۔ اگر ایرانی حکومت مستقبل قریب میں اس اخلاقی پولیس کو ختم کر بھی دیتی ہے تو عین ممکن ہے کہ مناسب وقت آنے پر اس کی جگہ اسی طرح کی کوئی اورفورس لے لے۔ ایرانی حکومت کے لئے ایڈہاک تنظیموں کو اس طرح کھڑا کرنا ایک عام سی بات ہے۔
تمام مسلح افواج کی طرح اس وقت ’اخلاقی پولیس‘ کے ارکان حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں بہت مصروف ہیں۔ وہ درحقیقت ایران میں حجاب کے نفاذ پر توجہ نہیں دے رہے ہیں، کیونکہ ایرانی حکومت کی بنیادی فکر یہ ہے کہ احتجاج کو کیسے روکا جائے۔ خواتین کی حجاب کے بغیر ویڈیوز ان دنوں بہت عام ہیں، لیکن اگر وہی خواتین احتجاج میں حصہ لیتی ہیں تو انہیں سخت وحشیانہ سزا دی جاتی ہے۔ جیسا کہ گارڈین نے بھی ایک رپورٹ میں واضح کیا ہے۔
ہر ایک کے ذہن میں سوال یہ ہے کہ کیا حکومت گر جائے گی؟ یقینا کوئی بھی یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ حکومت کیلئے سب سے سنگین چیلنج ہے؟
ڈاکٹر سعید زیدآبادی نژاد: یقینا ہاں۔ اس پیمانے اور پھیلاؤ کے مسلسل جذباتی مظاہرے ایران میں نہیں دیکھے گئے۔ یقینا حالیہ برسوں میں بہت سے مظاہرے ہوئے ہیں، جن میں 2009ء میں گرین موومنٹ، 2014-18ء میں جبری حجاب کے خلاف احتجاج، 2017ء کے احتجاج، 2019ء میں پٹرول کی قیمتوں میں تین گنا اضافے کے خلاف احتجاج اور 2020-21ء میں مزدوروں کے احتجاج شامل ہیں۔ تاہم موجودہ مظاہرے مختلف گروہوں کے وسیع ترین اتحادکا باعث بنے ہیں۔
یونیورسٹی کے طلبہ کی تحریک، بلوچستان اور کردستان میں نسلی امتیاز کے خلاف تحریکیں، مزدور تحریک، فنکار، وکلا سمیت مختلف شعبہ جات اور یقینا ایرانی خواتین اس میں شامل ہیں۔ ایران سے باہر (کم از کم) ایل جی بی ٹی کیو پلس گروپ بھی انقلابی تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔ تحریک کی کامیابی کچھ اعداد و شمار میں بھی واضح ہے:
٭ بی بی سی کے فارسی مضمون کے مطابق جینا (مہسا امینی) کی موت کے بعدسے 9 دسمبر 2022ء تک، 82 دنوں میں 160 شہروں میں 544 احتجاجی ریلیاں ہوئیں (ہر ریلی میں 30 اور اس سے زائد افراد شامل تھے)۔ یہ ایک بہت بڑا پھیلاؤ ہے، کیونکہ 1979ء کا انقلاب صرف بڑے شہروں پر مبنی تھا۔
٭ 9 دسمبر تک 82 دنوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 481 تھی، جو کہ 2019ء کے احتجاج سے بہت کم ہے، جب 7 دنوں کے وقفے میں مبینہ طور پر 1500 لوگ مارے گئے تھے۔ یہ اس لئے اہم ہے کہ اگر ہلاکتوں کا پیمانہ 481 کی بجائے ایک جیسا ہوتا تو موجودہ تحریک میں اب تک 17 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہوتیں۔
٭ دنیا کے 150 سے زائد شہروں میں ایرانی باشندوں نے ایران میں تحریک کی حمایت میں بیک وقت ریلیاں نکالیں۔ یہ ایرانی سیاسی منظر نامے کے ساتھ غیر معمولی یکجہتی ہے، جو بین الاقوامی توجہ ایران پر مرکوز کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ ایرانی باشندوں کا عظیم ثقافتی اور سماجی سرمایہ مغربی سیاستدانوں کی لابنگ میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ مثال کے طورپر فرانس کے صدر میکرون، کینیڈا کے جسٹن ٹروڈو، جرمن وزیر خارجہ، اعلیٰ مغربی حکام کی ایک بہت بڑی اور بڑھتی ہوئی تعداد نے ایرانی کارکنوں کی طرف سے ڈایاسپورا میں لانگ کے بعد ایرانی حکومت کی مذمت میں بیان جاری کیا ہے۔ بلاشبہ روس کے ساتھ ایرانی حکومت کی فوجی مصروفیات نے بھی ایرانی حکومت پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد کی ہے۔
٭ آخری اعداد وشمار ان ہڑتالوں کے بارے میں ہیں، جو حال ہی میں بازار اور یونیورسٹیوں کے طلبہ نے بڑے پیمانے پر منعقد کیں، ہر ہڑتال 3 روزہ ہڑتال تھی۔ ہڑتالوں کے پہلے دور کے بارے میں ہیک کئے گئے ایرانی حکومت کے ڈیٹا کے مطابق ایران کے 22 صوبوں میں 70 سے 100 فیصد بازار اور کاروبار بند کر دیئے گئے تھے۔
یہ خاص طور پر اہم ہے، کیونکہ تاجروں کو اب تک روایتی طور پر حکومت کے ساتھ منسلک سمجھا جاتا تھا اور 1979ء کے انقلاب کیلئے بازار کی حمایت کو اس کی فتح کی کلید کے طور پر بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ (دیکھئے: Abrahamian’s Iran between Two Revolutions)
تنظیمی طور پر تحریک 2 ماہ سے زیادہ کیسے زندہ رہی؟ شہری آپس میں رابطہ کاری، نیٹ ورکنگ وغیرہ کیسے کر رہے ہیں؟ کیونکہ کوئی سیاسی جماعتیں نہیں ہیں، جبکہ ٹریڈ یونینوں کی قیادت کو قید کر کے رکھا گیا ہے؟
ڈاکٹر سعید زیدآبادی نژاد: ایرانی مظاہرین مختلف تحریکوں میں سوشل میڈیا کے استعمال کا کافی تجربہ رکھتے ہیں، جیسا کہ قبل ازیں ذکر ہو چکا ہے۔ مثال کے طو رپر گزشتہ چند سالوں میں مزدور وں کے احتجاج میں ٹیلی گرام میسنجر کو بہت زیادہ استعمال کیا گیا۔ ٹویٹر کو 2009ء کے احتجاج میں آلہ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ فیس بک 2014-18ء میں جبری حجاب مخالف تحریکوں وغیرہ میں استعمال کی گئی۔ موجودہ تحریک میں ٹیلی گرام اور انسٹا گرام (ٹویٹر کے بعد) احتجاجی مظاہروں کو منظم کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہے ہیں۔ سیٹلائٹ ٹی وی اسٹیشن، خاص طور پر لندن میں قائم بی بی سی فارسی اور ایران انٹرنیشنل بھی بہت زیادہ دیکھے جا رہے ہیں، کیونکہ سیٹلائٹ ڈش تک رسائی ہر جگہ موجود ہے۔ مثال کے طور پر جب حالیہ مہینوں میں سوشل میڈیا پر ہڑتالوں کی کال دی گئی تھی، تو بی بی سی فارسی اور ایران انٹرنیشنل دونوں نے ہڑتال کی کالوں کے دن کا پہلے ہی اعلان کر دیا تھا۔
انٹرنیٹ اکثر بڑے پیمانے پر سست رفتار ہو جاتا ہے، لیکن عام طور پر بند نہیں ہوتا، رکاوٹیں بھی مختصر یا ٹارگٹڈ ہوتی ہیں۔ تاہم لوگ دوسرے غیر الیکٹرانک میڈیا جیسے پرنٹ شدہ پمفلٹ اور وال چاکنگ بھی کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ دونوں طریقے منظم ہونے اور ہڑتالوں کے بارے میں معلومات کو پھیلانے کیلئے بڑے پیمانے پر استعمال کئے گئے ہیں۔
ایسے میں جب کوئی واحد قیادت نہیں ہے، مختلف غیر رسمی نیٹ ورکس، جو گروپوں کے درمیان موجود ہیں، جیسا کہ طلبہ، خواتین کارکنان اور مزدور تحریک کو موجودہ تحریک کیلئے دوبارہ بحال کیا گیا ہے۔ مزید برآں، معروف رہنماؤں کی کمی مدد گار ثابت ہوئی ہے، کیونکہ اس کیفیت نے حکومت کیلئے قیادت کو ختم کر کے تحریک کو متاثر کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔
’روزنامہ جدوجہد‘ میں ہم ایران میں ہونے والی بغاوت کو تاریخ کا پہلا ’عورت انقلاب‘ قرار دیتے رہے ہیں۔ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں اور صنف (جینڈر)کے حوالے سے خود ایرانی اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر سعید زیدآبادی نژاد: خواتین، خاص طور پر کم عمر خواتین آن لائن اور آف لائن احتجاج میں سب سے آگے رہی ہیں۔
خواتین کی جذباتی شمولیت ان خواتین کی بہت بڑی تعداد کیلئے گہری ذاتی وجوہات کی بنا پر بھی رہی ہے، جن کے ساتھ ایران میں صنفی امتیاز کے ذریعے براۂ راست امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس تحریک میں پولیس کی بربریت کا شکار سب سے زیادہ خواتین ہی رہی ہیں اور ریلیوں کے شرکا میں ہمیشہ خواتین کو نمایاں طو رپر شامل کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ بلوچستان میں بھی خواتین کی شرکت نمایاں رہی ہے، جہاں ریلیوں میں خواتین کی موجودگی ایک نیا رجحان ہے۔
خواتین کے لئے ایران اور باہر پدرانہ نظام کے مسائل، بشمول ان کے اپنے جسم پر کنٹرول (مثلاً ان کا اپنی مرضی کے مطابق لباس پہننا) بہت ذاتی اور سیاسی رہا ہے۔ وہ جبری حجاب کے مسائل تک محدود نہیں ہیں۔ خواتین عوامی/نجی زندگی کے تمام شعبوں میں مساوی حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں۔
ذاتی طور پراپنے فیلڈ ورک کے دوران میں نے ایرانی سینما کے ذریعے صنفی مسائل بارے خواتین کے پر جوش ہونے کا تجربہ کیا۔ جیسا کہ آپ میری کتاب ’دی پالیٹکس آف ایرانین سینما‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے فلم انڈسٹری کی خواتین سے لیکر ان خواتین کے سینما شائقین تک، جو خواتین کے حقوق کے سب سے پرجوش حامی ہیں، بات کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رواں سال اس انقلابی تحریک میں خواتین کا کلیدی حصہ دار کے طور پر ابھرنا میرے لئے کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔
بدقسمتی سے پاکستان میں میڈیا اس تحریک کی کوریج نہیں کر رہا ہے، لیکن ترقی پسند حلقوں میں گہری دلچسپی ہے۔ پاکستان اور باقی دنیا میں ہم ایران کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟
ڈاکٹر سعید زیدآبادی نژاد: طالبعلموں، میڈیکل ڈاکٹروں، فنکاروں اور صحافیوں سمیت دنیا کے کونے کونے سے ایرانی انقلابی تحریک کے ساتھ باہمی یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں ایرانی کارکنوں کیلئے مسلم اکثریتی ممالک سے اظہار یکجہتی کرنا خوش آئند ہو گا، جہاں معاشرے کے مختلف طبقات کو درپیش مسائل میں فرق سے زیادہ مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ آپ پٹیشن پر دستخط کر سکتے ہیں، خبریں اپنے نیٹ ورکس تک پہنچا سکتے ہیں اور ان کی آواز بن سکتے ہیں، بین الاقوامی ریلیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ پاکستانی خواتین کارکنان پاکستان میں پدرانہ ڈھانچے کے درمیان مماثلت کو اجاگر کر سکتی ہیں اور ایرانی خواتین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کر سکتی ہیں، کیونکہ یہ جدوجہد بھی ان کی اپنی ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔