فاروق سلہریا
1971 پر بہت کم تحقیقی تصانیف شائع ہوئی ہیں، ان میں سے ایک ڈاکٹر طارق رحمان کی حالیہ تصنیف ’پاکستان وارز: این الٹرنیٹو ہسٹری‘ ہے، جس کا ریویو گزشتہ سال جنوری میں شائع کیا گیا تھا۔ آج بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے 54 سال مکمل ہونے پر اسے قارئین کےلئے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔
قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک، یہ ملک مسلسل حالت جنگ میں ہے۔ یا تو بھارت سے جنگ چل رہی ہوتی ہے یا پاکستان اپنے ہی خلاف جنگ لڑ رہا ہوتا ہے۔
بھارت کے خلاف 1947ء، 1965ء، 1971ء، سیاچن 1984ء (جو ہنوز جاری ہے)، کارگل 1999ء اور کشمیر میں پراکسی جنگ (جو وقتاً فوقتاً حسب ضرورت نوے کی دہائی سے جاری ہے) کی شکل میں چھ جنگیں ہوئیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کی اپنے ہی خلاف لڑی گئی جنگیں بھارت کے خلاف جنگوں سے زیادہ مہلک ثابت ہوئی ہیں۔ 1971ء میں پاکستان نے مارچ کے مہینے میں اپنے سب سے بڑے صوبے پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے لوگوں نے جنگ آزادی شروع کر دی اور نومبر میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ 16 دسمبر کو پاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دئے۔ مارچ تا دسمبر 1971ء، جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا جس کی تفصیلات کئی بار دہرائی جا چکی ہیں۔
اسی طرح، محبت اور محنت سے پالے گئے فرنکنسٹائن، جسے تحریک طالبان پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے، کے خلاف جنگ بھی بہت مہلک ثابت ہوئی ہے۔ اگر بھارت کے خلاف چار جنگوں میں پاکستان نے 18 ہزار جانوں سے ہاتھ دھوئے تو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں 70 ہزار پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ’چھوٹی سے بریک لینے کے بعد‘ سلسلہ پھر سے شروع ہے (1)۔
یہ جنگیں شروع کرنے کا فیصلہ کون کرتا رہا ہے؟ اس سوال کا جائزہ پاکستان کے معروف اکیڈیمک طارق رحمن نے اپنی تازہ کتاب پاکستانی وارز: این الٹرنیٹو ہسٹری (Pakistan’s Wars: An Alternative History) میں لیا ہے۔ طارق رحمن کا کہنا ہے ”…جنگوں کے فیصلے اوپر بیٹھے ایک گروہ (Clique) نے کئے، اس ٹولے میں سویلین بھی شامل رہے مگر زیادہ تر اس ٹولے میں فوجی افسر شامل تھے جنہوں نے فیصلہ سازی کرتے ہوے انتہا کے خطرات مول لئے“۔ خطرات مول لینے کے اس روئیے کو طارق رحمن نے گیمبلنگ سنڈروم (Gambling Syndrome) کا نام دیا ہے جبکہ فیصلہ سازی کے عمل کی تشریح وہ مندرجہ ذیل انداز میں کرتے ہیں: ”اس ٹولے کے افراد کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ ہر طرح کے معیار کو بالائے طاق رکھ دیا جائے، گمراہ کن انداز میں ایسے فیصلے لئے جاتے ہیں جیسے بدمعاش عناصر فیصلہ کرتے ہیں۔ جب فیصلہ سازی کے لئے قانونی ادارے موجود بھی ہوں مثلا سویلین حکومت اور پارلیمنٹ، وہ جب موجود بھی ہوں تو ان سے بالا بالا فیصلے لئے جاتے ہیں حتیٰ کہ فوج کو بھی ’ضرورت کی بنیاد‘ پر ہی مطلع کیا جاتا ہے“ (ص 2)۔
ایسا نہیں کہ خطرات مول لینے کا رجحان صرف پاکستان کی فیصلہ ساز گروہ یا ٹولے کا خاصہ ہے۔ باقی ملکوں میں بھی ایسا ہوتا ہے (ص 61) اور یہ کہ فوج کے اپنے اندر جنگی فیصلوں کی مخالفت ہوتی رہی ہے بہر حال گیمبلنگ سنڈروم کی وجہ ہے ”آمرانہ سیاسی کلچر، فوج پر سول کنٹرول کا نہ ہونا اور غیر فعال جمہوریت“ (ص 2)۔
گو پاکستان کی پہلی جنگ 1947-48ء ایک سویلین ٹولے نے شروع کی، باقی جنگیں فوجی ٹولے کا فیصلہ تھیں۔ اس فوجی غلبے کی وجہ پاکستانی ریاست کا ’Overdeveloped‘ کردار (ص 9-12) اور پاکستانی معاشرے کی ’Praetorian‘ (ص 47) نیچرہے (2)۔ طارق رحمن کے مطابق چونکہ اکثر جنگوں کا فیصلہ فوجیوں نے کیا اس لئے طارق رحمن کا خیال ہے کہ جنگوں کی فیصلہ سازی سمجھنے کے لئے ’فوجی سوچ‘ (انہوں نے ملٹری مائنڈ کی اصطلاح استعمال کی ہے) یا جرنیلوں کے ورلڈ ویو کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان کے بقول فوجی دماغ کی تشکیل چار عناصر سے ہوتی ہے: انڈیا کودشمن سمجھنا، یہ سوچ کہ پاکستانی فوجی بھارتی سپاہیوں سے زیادہ اچھے (بہادر) سپاہی ہیں، سویلینز کو گھٹیا سمجھنا اور اسلامی جذبہ۔ یہ اسلامی جذبہ ایک حالیہ اضافہ ہے (ص 55-61)۔
500 سے زائد صفحات پر مبنی اس کتاب میں طارق رحمن نے اپنا تھیسس ثابت کرنے کے لئے بے شمار ثبوت فراہم کئے ہیں۔ مثال کے طور پر کشمیر کے سوال پر شروع کی جانے والی پہلی جنگ (1947ء) محمد علی جناح اور ان کے نائب لیاقت علی خان کا فیصلہ تھا جس میں بعض درمیانے درجے کے مسلمان افسر بھی شامل تھے مگر سی این سی جنرل سر فرینک میسروی اور دیگر برطانوی کمانڈرز اس فیصلے سے بے خبر تھے (ص 87-92)۔ بحث سے ہٹ کر یہاں ایک دلچسپ بات ایسی بے موقع نہ ہو گی۔ مولانا مودودی نے اس جنگ کی مذہبی بنیادوں پر مخالفت کی تھی (ص 87)۔
اسی طرح، 1965ء کی جنگ جو گذشتہ جنگ کا ہی تسلسل تھی کیونکہ مقصد کشمیر پر قبضہ تھا، بھی ایک ٹولے کا فیصلہ تھی۔ اس فیصلے میں جنرل ایوب اور میجر جنرل اختر ملک کے علاوہ دو سویلین، وزیر خارجہ بھٹو اور سیکرٹری خارجہ عبدلعزیز، شامل تھے (ص 112)۔ فیصلہ سازی کے پیچھے ’فوجی سوچ‘یہ تھی کہ بزدل انڈیا جوابی کاروائی کی جرات نہیں کرے گا جبکہ امریکہ پاکستان کو اسلحہ بھی دے گا اور حمایت جاری رکھے گا۔ مزید غلط فہمی یہ تھی کہ اس مہم کے نتیجے میں دنیا کشمیر پر پاکستان کا حق تسلیم کر لے گی (ص 120)۔ یہ فیصلہ اس قدر گروہی انداز میں لیا گیا تھا کہ فوج کے سربراہ جنرل موسیٰ بھی اس کے خلاف تھے (ص 113-118)۔
1971ء کے فیصلے بھی ایک گروہ نے لئے البتہ اس دفعہ ایک اضافی عنصر بھی فوجی سوچ کا حصہ تھا۔ ہندو انڈیا کے علاوہ فیصلہ سازی کے پیچھے یہ سوچ بھی کارفرما تھی کہ پستہ قد بنگالی بانکے سجیلے پنجابی اور پشتون فوجیوں کو دیکھتے ہی غش کھا کر گر جائیں گے (ص 157)۔ اس جنگ کا فیصلہ جنرل یحییٰ اور ان کے قریبی جرنیل، جرنل عمر (اسد عمر کے والد) نے کیا۔ یحییٰ کو ڈر تھا کہ اگر 1970ء کے انتخابات کو تسلیم کیا تو ان کے خلاف فوجی بغاوت ہو جائے گی۔ فوج کے اندر بھی مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کرنے کی مخالفت موجود تھی۔ ان منحرفین میں میجر جرنل صاحبزادہ یعقوب علی خان، ایڈمرل احسان اور ائر کماندور ظفر معسود نمایاں تھے۔ اس فیصلے کے پیچھے فوجی سوچ کے علاوہ روایتی مفروضات بھی تھے۔ مثلاً یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اگر انڈیا نے حملہ کیا تو امریکہ اور چین پاکستان کی خاطر جنگ میں کود پڑیں گے۔
باقی جنگیں جن کا جائزہ اس کتاب میں لیا گیا ہے، وہ بھی ایک گروہ یا اوپری ٹولے نے مسلط کیں۔ کتاب کے مطالعے سے ایک بات جو کسی حد تک انسان کو دنگ کر دیتی ہے وہ ہے فوجی دماغ کی یہ اہلیت کہ وہ ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ مثال کے طور پر کارگل جنگ بھی چار کے ٹولے نے مسلط کی۔ کارگل پر حملے کا منصوبہ جنرل ضیا، بے نظیر بھٹو اور جنرل جہانگیر کرامت کو بھی پیش کیا گیا مگر انہوں نے رد کر دیا (ص 271-73)۔ طارق رحمن کا خیال ہے کہ سبق نہ سیکھنے کی وجہ ہے: ”فیصلہ سازی انتہائی رازداری کے ساتھ کی جاتی ہے تا کہ اس کی حسب ضرورت تردید کی جا سکے،نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعد ازاں تنقیدی انداز میں ان فیصلوں کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہوتا تا کہ مستقبل میں بہتر فیصلہ سازی کی جا سکے“ (ص 2-3)۔
جنگوں کی فیصلہ سازی اس کتاب کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان جنگوں میں حصہ لینے یا ان کا شکار بننے والے سپاہیوں، بیواوں، ریپ کا شکار ہونے والی عورتوں اور ان کے لواحقین کے تجربات بھی دستاویزی شکل میں پیش کئے گئے ہیں۔ اگر جنگی فیصلہ سازی والا پہلو ایک اکیڈیمک کے طور پر لکھا گیا ہے (جس کے لئے بے شمار عرق ریزی کی گئی ہے، ویسے بھی طارق رحمن دستاویزی ثبوت جمع کرنے میں مہارت رکھتے ہیں) تو دوسرا پہلو ساحرلدھیانوی کے شاعرانہ انداز میں لکھا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ چوتھے باب کا آغاز جس ایپی گرام سے ہوتا ہے وہ ساحرکی مشہور نظم ’اے شریف انسانو‘سے لیا گیا ہے:
کھیت اپنے جلیں یا اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
نوا ں باب جس کا عنوان ہے ’وار اینڈ جینڈر: فی میل‘ عورتوں کی دردناک کہانیوں سے بھرا ہوا ہے جس میں ماوں، بیواوں اور ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کے نقطہ نگاہ سے جنگ کو دیکھا گیا ہے۔ خواتین کو دو جنگوں میں بالخصوص بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ پہلی بار جب 1947ء میں قبائلی لشکر کشمیر روانہ کے گئے۔ قبائلی مجاہدین نے ہندو، سکھ اور عیسائی خواتین کے ریپ کئے، انہیں اغوا کیا اور قتل کیا۔ اسی طرح، جموں کی مسلمان خواتین نے قیمت ادا کی۔ دوسری بار، 1971ء کی جنگ میں ایک طرف پاکستانی سپاہیوں نے بنگالی خواتین کے ساتھ ہولناک انداز میں سلوک کیا تو دوسری طرف مکتی باہنی کے گوریلاوں نے بہاری یا بعض مغربی پاکستان کی خواتین جو وہاں موجود تھیں اور ان کے ہاتھ چڑھیں، کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا۔ (واضح رہے، طارق رحمن پاکستانی فوج اور مکتی باہنی کی زیادتیوں کو ایک ہی سطح پر نہیں پرکھتے، دونوں کی طاقت میں زمین آسمان کا فرق تھا۔)۔ طارق رحمن 1947ء کی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے مظفر آباد کے ایک رہائشی کا بیان قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”ہماری ایک رشتہ دار عورت کا این صحت مند بچہ تھا۔ ہم بکریوں کے تبیلے میں چھپ گئے۔ اس عورت نے اپنے بچے کا گلا دبا کر مار دیا کیونکہ ڈر تھا کہ بچے کے رونے کی آوازیں سن کر پٹھان آ جائیں گے“ (ص 367)۔
کتاب میں بے شمار ایسے واقعات بھی درج ہیں جن سے انسانیت پر یقین برقرا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے اپنے ائر فورس چیف کو حکم دیا تھا کہ سول ٹھکانوں پر حملہ نہ کیا جائے۔ اسی طرح 1965ء کی جنگ میں پاکستان نے بھی سول ٹھکانوں پر حملہ کرنے سے پرہیزکیا۔ طارق رحمن کے بقول دوسری جنگ کے خاتمے پر جس طرح اتحادیوں نے جرمن شہر ڈریسڈن پر بمباری کی، اس کے مقابلے پرتو یہ کافی مہذب تھا (ص 128)۔ اسی طرح، 1965ء کی جنگ کے دوران عید کے موقع پر ہندوستانی سپاہیوں نے پاکستانی سپاہیوں کے لئے سویاں بھیجیں تو پاکستانی سپاہیوں نے بھی جواب میں مٹھائی بھیجی (ص 137)۔ بنگالیوں نے پنجابی سپاہیوں کی جانیں بچائیں تو پنجابی سپاہیوں نے بعض بنگالی خواتین کی حفاظت کی۔
تبصرے کے آخر میں دو معروضات کرنا چاہوں گا۔ اؤل، طارق رحمن نے ایک گروہ یا اوپری ٹولے کے حوالے سے بحث کو بہت آگے نہیں بڑھایا۔ کیا جنگ کے فیصلے بہرحال اوپر بیٹھے ٹولے ہی نہیں کرتے؟ جہاں عوام کی حمایت درکار ہو، حکمران کامیابی سے جنگی جنون پیدا کر لیتے ہیں۔ امریکہ نے جس طرح عراق پر انتہائی بلاجواز حملے کے لئے امریکی عوام کی حمایت حاصل کی، اس سے سبق ملتا ہے کہ فیصلہ ٹولے ہی کرتے ہیں، چاہے یہ فیصلے خفیہ ہوں یا عوام کو بے وقوف بنا کر۔ اس بابت کتاب میں تھوڑی تشنگی رہ جاتی ہے۔ دوم، اس میں شک نہیں کہ 1971ء کے دوران بھٹو نے جرنیلوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کی پیٹھ میں خنجر گھونپا البتہ 1965ء کی جنگ میں ان پر، اس کتاب میں، ضرورت سے زیادہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے جس کا دستاویزی ثبوت بہت متاثر کن نہیں۔ بی بی سی اردو (3) سے بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر نے 1965ء کی جنگ میں بھٹو کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا تھا: ”ہم نے سارا ریکارڈ دیکھا۔ بھٹو پر فوجیوں نے ذمہ داری ڈالی“۔
مجموعی طور پر یہ کتاب پاکستانی سیاست، تاریخ، ریاست اور معاشرت کو سمجھنے کے لئے ایک بہترین دستاویز ہے۔ طارق رحمن کی اس کتاب سے سکالر، طالب علم، انسانی حقوق کے کارکن، فیمنسٹ اور عام شہری مستفید ہو سکتے ہیں۔ انگریزی زبان میں لکھے جانے کے باعث یہ کتاب پورے برصغیر میں توجہ کی حقدار ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست کی جانب سے مسلط کی گئی سوچ کو چیلنج کرنے اور تنقیدی و علمی کلچر کو فروغ دینے کے لئے، ایک ترقی پسند اورانسان دوست نقطہ نظر سے لکھی گئی یہ کتاب ہر سنجیدہ قاری کی توجہ کی متقاضی ہے۔
حوالہ جات
۱۔ پرویزہود بھائی کا آرٹیکل
۲۔ اوور ڈویلپڈ اسٹیٹ ایک تھیوری تھی جو حمزہ علوی نے پاکستانی ریاست کے حوالے سے دی تھی۔ اسی طرح پراٹورئین ریاست کی تھیوری ایک امریکی سکالر پرلمٹر نے دی تھی۔ دونوں میں ہی اس بات کو پیش کیا گیا تھا کہ ایسی ریاستوں اور معاشروں میں فوج بالا تر حیثیت رکھتی ہے۔
۳۔ سیر بین، 2 ستمبر 2009ء، سیلف مانیٹرنگ
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔