فاروق سلہریا
یہ مضمون 2013ء میں نیلسن منڈیلا کی وفات کے موقع پر ’دی نیوز‘میں شائع ہوا۔ اس تحریر کا مقصد پاکستانی حکمرانوں کی منافقت کوآشکار کرنا تھا جونیلسن منڈیلا کو بڑھ چرھ کر خراج ِعقیدت پیش کر رہے تھے۔ حال ہی میں فواد چوہدری کی گرفتاری کے بعد، پاکستان تحریک انصاف کے ’انقلابیوں‘ نے فواد چوہدری کو نیلسن منڈیلا بنانے کی کوشش کی۔ اس پس منظر میں اسے یہاں اردو ترجمے میں پیش کیا جا رہا۔ اندریں حالات، تحریک انصاف سے افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ نیلسن منڈیلا کوئی ہیش ٹیگ نہیں جسے ’بیٹا ارسلان‘ اپنی ٹیم کی مدد سے راتوں رات ٹوئٹر کا ٹاپ ٹرینڈ بنادیں: مصنف
باچہ خان ’سرحدی گاندھی‘ یاد ہیں نا؟ وقتاً فوقتاً باچہ خان نے بھی لگ بھگ اتنے سال ہی جیل کاٹی جتنے سال نیلسن منڈیلا نے۔ نیلسن منڈیلا کی طرح باچہ خان بھی عدم تشدد کے پرچارک اور گاندھی بھگت تھے۔
مصیبت یہ ہوئی کہ جس ممکتِ خداداد کی بنیاد محمد بن قاسم نے رکھی، گو یہ مملکت رسمی طور پر 1947ء میں وجود میں آئی، اس میں گاندھی بھگتوں اور عدم تشدد والوں کے لئے کوئی جگہ نہ تھی بھلے وہ باچہ خان جیسے پکے مسلمان ہی کیوں نہ تھے کیونکہ 1: گاندھی بھگت سیکولر تھے؛ 2: وہ سامراج مخالف تھے۔
بانیان ِپاکستان انکل سام کا دل جیتنا چاہتے تھے۔ سیکولرزم اور سامراج مخالف اس کام میں روڑے اٹکا رہے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب باچہ خان نے عبدالصمد اچکزئی اور جی ایم سید ایسے دیگر عدم تشدد کے پرچارک رہنماؤں کے ساتھ مل کر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔
کبھی سانحہ بھابھڑہ بارے سنا؟
بھابھڑہ (ضلع چارسدہ) میں پیپلز پارٹی کا جلسہ ہو رہا تھا۔ پولیس نے جلسے پر اتنی گولیاں برسائیں کہ گولیاں ختم ہو گئیں۔ یوں پہلی پیپلز پارٹی نامی برائی کوجڑ پکڑنے سے پہلے ہی کاٹ دیا گیا۔
باچہ خان البتہ وہ برگد تھے جنہیں گولیوں سے کاٹا نہیں جا سکتا تھا۔ اس لئے ریاست نے فیصلہ کیا کہ انہیں اندر سے توڑا جائے۔ اگلے دس سال تک وہ لگ بھگ پابند سلاسل رہے۔ 1964ء میں جب جیل سے رہا ہوئے تو افغانستان جلا وطن ہو گئے۔ یہ جلا وطنی 1972ء میں تب ہی ختم ہوئی جب نیشنل عوامی پارٹی، جس کے وہ بانیوں میں سے تھے، نے صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں حکومت بنائی۔ وطن واپسی پر انسانوں کے ایک سمندر نے ان کا استقبال کیا۔ اتنا بڑا استقبال دیکھ کر بھٹو صاحب کے بھی ہوش اڑ گئے۔ انہیں لگا کہ ان کا حقیقی حریف مد مقابل آ گیا۔ سال بعد، بھٹو نے بھی انہیں جیل میں ڈال دیا۔ گویا جب پاکستانی نیلسن منڈیلا سے سامنا ہو تو پاکستانی حکمران سویلین ہوں یا خاکی، ایک سا ہی سلوک کرتے ہیں۔ 1987ء میں جب باچہ خان نے وفات پائی تو وہ نظر بند تھے کیونکہ وہ کالا باغ ڈیم کے نام پر واٹر اپارتھائڈ مسلط کرنے کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔
مرزا ابراہیم کا نام سنا کبھی؟ 1999ء میں جب انہوں نے وفات پائی تو 94 سالہ مرزا ابراہیم بھی نیلسن منڈیلا کی طرح کم و بیش پچیس سال کی قید کاٹ چکے تھے۔ انہوں نے تاج برطانیہ کی جیل بھی کاٹی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بدنام ترین ٹارچر سیل (شاہی قلعہ) بھی سہا۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ طبقاتی اپارتھائڈ کے خلاف تھے۔
مرزا ابراہیم پکے کیموسٹ تھے۔ ٹریڈ یونین رہنما تھے۔ سیاست میں پہلی بار تحریک ِخلافت میں حصہ لیا اور سولہ سال کی عمر میں جیل کاٹی۔ بابائے محنت کشاں کہلانے والے مرزا ابراہیم پاکستان میں ٹریڈ یونین ازم کے بانی تھے۔ پاکستان بننے کے بعد جب پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے تو فیڈریشن کے نائب صدر فیض احمد فیض منتخب ہوئے تھے۔ 1950ء میں انہوں نے لاہور سے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ الیکشن تو جیت گئے لیکن نتیجہ آیا تو مسلم لیگ کے امیدوار کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ اس حلقے میں جو انتخابی دھاندلی ہوئی اس کے بعد انتخابی دھاندلے کے لئے ’جھرلو پھرنے‘ کی اصطلاح عام ہوئی۔ 1951ء میں انہیں گرفتار کر کے شاہی قلعہ بھیج دیا گیا جہاں ان پر بد ترین تشدد ہوا۔ اس کے بعد، 1988ء تک شاید ہی کوئی حکومت آئی جس نے مرزا ابراہین کو جیل نہیں بھیجا۔
عبدالصمد اچکزئی (بلوچ گاندھی)، سائیں جی ایم سید، غوث بخش بزنجو، میاں افتخار الدین، حیدر بخش جتوئی…ان میں سے کچھ گاندھی بھگت تھے، کچھ مارکس وادی،مگر سب عدم تشدد والے…کسی نہ کسی شکل میں نیلسن منڈیلا کی طرح جدوجہد اور قربانیاں دیتے اس دنیا سے چلے گئے۔ ان کی جدوجہد اور قربانیوں کا مرکز و محور افتادگان ِخاک تھے۔
ان سب کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟
جب زندہ تھے تو جیل میں ڈالا، ٹارچر کیا، غدار قرار دیا، دشنام طرازی کے تیر برسائے، جھوٹے الزام لگائے۔ حسن ناصر جیسے بعض انقلابی تو ٹارچر کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ فاضل راہو جیسے قتل کر دئیے گئے۔
جب یہ لوگ اس دنیا سے چلے گئے تو…مبادا نئی نسل ان لوگوں کے نظریات سے جانکاری حاصل کرنا شروع کر دیں…انہیں سنسر کر دیا گیا۔
ہمیں نیلسن منڈیال تو چاہئیں لیکن دوسرے ملکوں میں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔