تاریخ

نسوانی حقوق اور انقلابی جدوجہد!

علیزہ اسلم

08 مارچ دنیا بھر میں محنت کش خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ 1910ء میں محنت کشوں کی عالمی تنظیم کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی محنت کش خواتین کی ایک کانفرنس میں کیا گیاتھا۔ لیکن اس دن کو پذیرائی 1917ء میں روس کی انقلابی تحریک کے وقت ملی جب پرانے کلینڈر (بازنطینی) کے مطابق 23 فروری اور نئے کلینڈر (جارجیائی) کے مطابق 08 مارچ کو خواتین نے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا۔ موجودہ عہد میں سرمایہ دارانہ نظام اپنے ہی اندر زوال پذیری کا شکار ہے۔ سامراجی جنگیں، معاشی گراوٹ، سیاسی انتشارات، قدرتی آفات، قحط سالی، دیوالیہ ہوتے ممالک اور ریاستی ٹوٹ پھوٹ تیزی سے بڑھتے ہوئے نظر آ رہی ہے۔ نظام کی اس زوال پذیری نے جہاں محنت کشوں کی زندگی کو اجیرن کر رکھا ہے، وہیں ایک ایسی سماجی پرت بھی ہے جو دوہرے اور تہرے جبر واستحصال کا شکار ہوتے ہوئے نظر آتی ہے۔

آج دنیا بھر کی بیشتر خواتین خواہ وہ یورپ، امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتی ہوں، ان کی آزادی ادھوری ہے اورپسماندہ ممالک میں تو عورت کی حالت اذیت ناک اور کئی گنا بدتر ہے۔ کہیں رسموں رواجوں کی آڑ میں اور کہیں ثقافتی روایات کے جبر سے عورت کو تابعدار بنا کر رکھا گیا ہے۔ اجرتوں سے لے کر سماجی رویوں تک ہر شعبے میں مردوں کی نسبت خواتین دوہرے جبر کا شکار ہیں۔ اس بدبودار نظام میں کہیں خواتین کو ہوس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں غیرت کے نام پر قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ کہیں کنویں سے لاشیں برآمد ہو رہی ہیں اور کہیں تیزاب پھینکنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے جس کو بیان کرنے کے لئے کتابیں کم پڑ سکتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھی میڈیا کے ذریعے ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جو دل دہلا دینے والے ہیں، حالانکہ زیادہ تر واقعات تو رپورٹ تک نہیں ہو پا رہے۔

اس نظام میں جہاں دو وقت کی روٹی بھی بہت مشکل سے ملتی ہے۔ وہاں ایک خاتون جو صرف روزی روٹی کی خاطر اپنی جان گواہ بیٹھتی ہے تو کہیں اپنا جسم بیچنے پر مجبور ہے۔ اس غلیظ نظام کے ہاتھوں صدف جیسی خواتین جو اپنے خاندان کی پرورش کے لیے حکمران طبقے کے کنٹینر کے نیچے کچلی جاتی ہیں۔ ایسی ہی بیشمار صدف ہوں گی جن کا قتل تو ہوتا ہے لیکن ان کا قاتل کون ہے؟ معلوم نہیں!

بلوچوں کو ہمیشہ ریاستی ظلم کا نشانہ بنایا گیا لیکن کچھ عرصہ سیبلوچ خواتین پر بھی ظلم کی انتہا کر دی گئی ہے۔ ماہل بلوچ کو سکیورٹی اداروں نے اپنی تحویل میں لیا ہے اور اس پر یہ الزام عائد ہے کہ وہ خودکش بمبار بننے کی طرف جا رہی تھی۔ بلوچ خواتین جو اپنے خاندان کے میسنگ پرسنز کی تصاویر اپنے ہاتھوں میں لیے پرس کلبوں کے باہر کھڑی ہیں تاکہ ان کی آواز کوئی سنے اور ان کو ان کے خاندان والوں سے ملائے۔ لیکن ان کی دادرسی کیبرعکس ان کے خلاف ریاستی پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ دشمنوں کے ہاتھوں میں آ کر ملک کو بدنام کر رہی ہیں۔ تو کیا یہاں یہ سمجھا جائے کہ میسنگ پرسنز کوئی ہیں ہی نہیں؟ اس سوال کا جواب تو سب پر واضح ہے۔

موجودہ عہد میں جہاں روٹی حاصل کرنا مشکل ہے وہیں علاج کی عدم فراہمی کی وجہ سے بیشتر جانیں ضائع ہوئیں ہیں۔ بہت سی خواتین حمل کی پیچیدگیوں، اسقاط حمل اور دیگر نسوانی بیماریوں سے ناقص فراہمی علاج کے باعث ہلاک ہو جاتی ہیں۔ چند روز قبل ایسی ہی ایک ماں جو اپنے معذور بیٹے کے علاج کے لیے بیرون ملک جا رہی تھی کہ کشتی کے حادثے میں اپنی جان گواہ بیٹھی۔ شاہدہ جیسی بیشتر مائیں ہیں اس گلے سڑے نظام میں اپنی جان کی بازی ہار چکی ہیں۔

بارکھان کے کنویں میں پائی جانے والی لڑکی کی لاش، جس کے قتل سے پہلے ریپ بھی کیا گیا، محض اٹھارہ یا بیس سال کی تھی، جس کی شناخت بھی نہ ہو سکی۔ یہ لاش اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ معاشرہ نہایت ہی غلاظت سے بھرا پڑا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقع نہیں بلکہ زینب جیسے واقعات بھی اس سے پہلے ہو چکے ہیں۔ وہیں ایک عورت جس کا نام گرا ناز بی بی ہے (جس کے بارے میں کہا گیا کہ اسی کی لاش کنویں سے ملی ہے لیکن بعد میں ان کو زندہ بازیاب کرایا جا چکا ہے) قرآن کو ہاتھ میں اٹھائے انصاف مانگ رہی ہے کہ ”میرے دونوں بچوں کی لاشوں کو مجھے دو تاکہ میں انہیں دیکھ سکوں۔“ انصاف کی دہائی دینے کے بعد اس عورت کو اغوا کر دیا گیا تاکہ اسے خاموش کرایا جا سکے۔ اور یہی اس نظام کا اصل ہے کہ کسی کو اغوا کرا لو، کسی کو مار دو لیکن انصاف مانگنے والی زبانوں کو ہر صورت بند کرواؤ۔

حالیہ دنوں پاکستانی جموں کشمیر کے ضلع باغ میں بھی ایسے ہی دل دہلانے والے ایک واقع میں معصوم لڑکی پر تیزاب پھینک دیا گیا۔ ثوبیہ کی میت کو دروازے پر چھوڑ دیا گیا اور اس کی ماں اپنی بیٹی کی موت کی وجہ سے غم میں نڈھال اس نظام کے گماشتوں سے انصاف مانگ رہی ہے مگر سرمایہ دار اپنے سرمائے کی بدولت فرعون کا روپ دھارتے نظر آ رہے ہیں اور انصاف کو سرمائے کی طاقت سے خرید رہے ہیں۔ ایسے ہی کئی واقعات ہیں جن کو غیرت کے نام پر دبا دیا گیا اور کہیں عدالت نے ملزمان کو ثبوت ناکافی ہونے کی بنا پر بری کر دیا۔ جس کے نتیجے میں فرعون صفت درندے آزادانہ گھوم رہے ہیں۔

عورتوں پر نہ صرف سماجی و مذہبی پرتوں کی طرف سے مختلف پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں بلکہ ریاست بھی مختلف طریقوں سے عورتوں کو پسماندہ رکھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکتی۔ کی اصل وجہ عورتوں کا وہ مزاحمتی کردار ہے، جس کردار سے سماج کی پسماندہ پرتوں اور حکمران طبقات خوفزدہ ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عورت وہ طاقت ہے جس نے بہت سی تحریکوں میں حصہ ہی نہیں ڈالا بلکہ ان تحریکوں کا آغاز بھی کیا۔ انقلاب روس کے معمار اور سرخ فوج کے سربراہ لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ ”بیشتر انقلابات و سرکشیوں کی فوری وجہ عورت بنی ہے۔“ اس کی مثال ہم ایران کی حالیہ تحریک سے لے سکتے جو ایک بائیس سالہ نوجوان لڑکی مہسا امینی کے گرد بنی جسے پولیس نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ اسی قتل نے ایران کی محنت کش خواتین کو ساتھ جوڑا اور ملائیت و حکمران طبقہ کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز نظر آیا۔ ”زن زندگی اور آزادی“ اس احتجاجی تحریک کا مقبول ترین نعرہ بن گیا ہے۔ اسی طرح تاریخ میں دیکھا جائے تو خواہ وہ عرب خواتین ہوں یا روس کی خواتین انہوں نے تحریکوں میں ہر اؤل دستے کا کردار ادا کیا۔ روس کے انقلاب کو دیکھا جائے تو اس کا آغاز خواتین نے کیا تھا۔ 1917ء میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پیٹروگراڈ میں ٹیکسٹائل مل کی محنت کش خواتین نے ہڑتال کر دی۔ ان کے مطالبات نہایت معمولی و بنیادی نوعیت کے تھے۔ جن میں روٹی کا مہنگا ہونا سب سے بڑی وجہ تھی۔ یہی انقلاب کا آغاز تھا جس نے آگے جا کر روس میں نا صرف بادشاہت کو گرایا بلکہ سرمایہ داری کو ہی اکھاڑ پھینکنا تھا۔

اس نظام میں خواتین بھی کوئی اکائی نہیں ہیں بلکہ مختلف طبقوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان طبقات کی بنیاد پر خواتین کے مسائل مختلف نوعیت کے ہیں۔ ہمیں اس طبقاتی فرق کو ہمیشہ مدنظر رکھنا ہوگا کیونکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں جب کبھی خواتین کسی بھی جبر اور نا انصافی کے خلاف سراپائے احتجاج ہوئیں ہیں تو وہاں یہ طبقاتی فرق واضح نظر آیا ہے۔ اس حوالہ سے ایک انقلابی خاتون روزا الکسمبرگ نے لکھا تھا کہ ”ملکیت رکھنے والے طبقے کی خواتین ہمیشہ پاگل پن کی حد تک استحصال اور غلامی کا دفاع ہی کریں گی کیونکہ اس میں ہی وہ اپنے بیکار سماجی وجود کی بقا کے ذرائع تلاش کرتی آئی ہیں۔“

جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن سمیت تمام عالمی سوشلزم کی علمبردار تنظیموں نے ہمیشہ خواتین کے سوال کواہمیت دی ہے۔ کیونکہ محنت کش طبقے کا نصف حصہ عورتوں پر مشتمل ہے اس وجہ سے مارکسی اساتذہ نے ابتدا ہی سے محنت کش خواتین میں کام کرنے پر زور دیا ہے۔ مارکسزم ”حقوق نسواں“ کے لیے جدوجہد کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن”حقوق نسواں“ کی جدوجہد حکمرانوں اور درمیانے طبقے کی اوپر والی پرتوں کے مسائل کے گرد کام کرنے والی لبرل اور فیمنسٹوں سے مختلف ہے۔ ہمارے نزدیک عورتوں پر ہونے والے استحصال کی وجہ معاشرے کی طبقاتی تقسیم ہے۔ جبکہ لبرل اورفیمنسٹوں کے مطابق عورت پر جبر کی وجہ مردوں کی ذہنیت ہے۔ یہ ایک غیر سائنسی نظریہ ہے کیونکہ موجودہ عہد میں جہاں محنت کش خواتین مردوں کے جبر کا شکار ہو رہی ہیں، وہیں محنت کش خواتین حاکم طبقے کی خواتین کے جبر کا بھی نشانہ بن رہی ہیں۔ اسی طرح محنت کش مرد بھی حکمران طبقے کے مردوں سمیت حاکم طبقات کی عورتوں کے جبر و استحصال کا بھی نشانہ بنتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ارتقا حیات اور انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جا ئے تو مرد اور عورت دونوں کا ہونا ضروری ہے اور دونوں کا ذکر ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہے۔ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ایک وقت میں ہمیں اس کرۂ ارض پر مدرسری نظام بھی نظر آتا ہے۔ جہاں عورتوں نے بچوں کی پیدائش اور پرورش کے ساتھ ساتھ خاندان کے سربراہ کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ مگر نجی ملکیت کے آغاز کے ساتھ جوں ہی معاشرہ طبقات میں تقسیم ہوا، عورت کو بھی خاندانی سربراہی سے بے دخل کر دیا گیا۔ مرد انہ حاکمیت اور بالادستی بڑھتی گئی اور پھر عورت کو بھی ایک آزاد انسان کی بجائے نجی ملکیت سمجھا جانے لگا۔ اسی لیے نجی ملکیت اور سرمایہ داری کے خاتمے کے بغیر عورتوں کی آزادی ممکن نہیں۔

فیڈرک اینگلز نے کہا تھا کہ ”سوشلزم میں کوئی بھی عورت کسی بھی مجبوری یا غلامی کی وجہ سے خود کو کسی مرد کے سپرد نہیں کرے گی اور نا ہی کوئی مرد پیسے کی طاقت سے کسی عورت کو خرید سکے گا۔ منصفانہ اور مساوی سماج میں ہی حقیقی محبت پنپ سکے گی۔“ یعنی عورت کی حقیقی آزادی کا سوال نجی ملکیت کے خاتمے سے منسلک ہے جو آج کے عہد میں صرف و صرف سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا واحد راستہ طبقاتی بنیادوں پر منظم کی جانے والی جدوجہد ہے۔ ایسی جدوجہد جس میں محنت کش خواتین اور مرد محنت کش طبقے کی بنیاد پر حکمران طبقے کے خلاف ایک مشترکہ اور فیصلہ کن لڑائی کا آغاز کریں۔ انیسا آرمنڈ کے مطابق ”جہاں عورت کی آزادی کمیونزم کے بغیر ناقابل تصور ہے تو وہیں پر کمیونزم بھی عورت کی جدوجہد کے بغیر ناممکن ہے۔“ اس کرۂ ارض سے استحصالی نظام کے خاتمے کے لئے عورتوں کو آگے بڑھ کر محنت کش مردوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا ہو گا۔ اگر سوشلزم و کمیونزم ہی عورت کی نجات ہے تو اس نظام کے قیام کے لئے خواتین کی عملی جدوجہد میں شمولیت بھی اسی طرح شرط ہے جیسے عورت کی آزادی کے لئے غیر طبقاتی سماج کا قیام شرط ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts