فاروق سلہریا
قبلہ و کعبہ اہلیان زمان پارک اسلام علیکم۔
امید ہے ہفتے کے روز ’وحشی پشتونوں‘ کی گرفتاریوں کے بعد آپ پر سکون نیند سوئے ہوں گے۔
ذرا سوچئے! آپ کے زمان پارک میں چند دن ’پر امن احتجاج‘ ہوا، دو چار پٹرول بم پھٹے، پولیس کے ہلکے پھلکے آپریشن ہوئے، آنسو گیس چلی اور زمان پارک کے ایک معروف رہائشی، اعتزاز احسن، کی بہنیں ہائی کورٹ پہنچ گئیں۔
کابل چالیس سال خونی قسم کا زمان پارک بنا رہا۔ یہاں جب ’پر امن احتجاج‘ہوتا تھا پٹرول بم نہیں، خود کش بم پھٹتے تھے۔ یہاں پنجاب پولیس نہیں سویت روس، امریکہ، سی آئی اے، القاعدہ، ’دنیا کی نمبر ون‘، سعودی مخبرات، پوری مسلم ورلڈ کے جہادی، پاکستان اور کشمیر کے مجاہدین…ہمارے سکولوں، ہسپتالوں، قبرستانوں، درگاہوں، بازاروں، شاہراہوں، گوردواروں، مندروں اور مسجدوں پر کبھی جہازوں سے مدر آف آل بامبز گراتے تو کبھی مومن بھائی جنت کی تلاش میں کابل کی کسی بستی کو جہنم بنا دیتے۔
میری عمر زیادہ نہیں لیکن اتنی ضرور ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد ہونے والے واقعات ازبر ہیں۔
مجھے یاد ہے جب ’وحشی پشتون‘ انسانی ڈرون کی شکل میں کابل کی کسی گلی یا سکول کو بارود اور آگ میں جھونک کر جنت کی جانب روانہ ہوتے تھے تو ان کا سب سے بڑا وکیل زمان پارک میں بیٹھ کر، مغرب کے میڈیا میں ان ’وحشی پشتونوں‘ کی وکالت کیا کرتا تھا۔
طالبان خان کے انٹرویو دیکھ کر میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ طالبان کون ہیں؟
وہ جو کابل کی سڑکوں پر پھٹ رہا ہے یا زمان پارک کا ہینڈ سم رہائشی؟
وہ جس نے بارودی جیکٹ بنائی تھی یا جنرل حمید گل اور کرنل امام؟
وہ جس نے کابل کے کسی گھر میں طالبان کا سلیپنگ سیل بنا رکھا تھا یا وہ جس نے کابل کے سیرینا ہوٹل میں چائے کا فاتحانہ کپ پیا تھا؟
یقین کیجئے! میں آپ کو طعنے نہیں دے رہی۔ مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اس لئے یہ خط لکھ رہی ہوں۔
مریم نواز نے زمان پارک کی رہائشی جن دو خواتین کا ویڈیو ٹویٹ کیا، جس پر میرے پشتون بہن بھائی اور بعض ترقی پسند اعتراض کر رہے ہیں، اسی کو دیکھ کر تو میں نے یہ خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔
ان خواتین میں سے ایک کالج میں پڑھاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زمان پارک میں جاری مظاہروں کی وجہ سے وہ کالج نہیں جا سکیں۔ گو میں ان خواتین اور کے پشتونوں بارے کلمات کی شدید مذمت کرتی ہوں مگر یقین کیجئے اگر تعلیم کا حرج ہو تو ہم افغان خواتین سے زیادہ کوئی فکر مند نہیں ہوتا۔
ہم دو سال ہونے کو آئے اپنے اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی عمارت کو دور سے دیکھ کر گھر واپس چلی آتی ہیں۔ معلوم نہیں زمان پارک سے تعلق رکھنے والی کالج ٹیچر نے کبھی ہمارے بارے سوچا یا نہیں لیکن اتنا بتاتی چلوں کے جب ’وحشی پشتونوں‘ نے کابل میں ڈیرے ڈالے تو علامہ اقبال کی بہو محترمہ ناصرہ اقبال بھی، سر پر حجاب لئے بغیر، طالبان کی شان میں ’قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآں‘ گا رہی تھیں۔
ایک بات بتاتی چلوں میں پشتون ہوں بھی، نہیں بھی۔ تمام افغان شہری پشتون نہیں ہیں۔ یہاں تاجک، ہزارہ، ترک،بلوچ، ترکمان، ازبک، پشئی، نورستانی اور بعض دیگر اقوام آباد ہیں۔ ہاں ایک اور بات۔ افغانی ہماری کرنسی ہے۔ ہم افغان کہلاتے ہیں۔ اگلی دفعی ٹویٹ کریں تو ہمیں افغان لکھیں، افغانی نہیں۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ میری والدہ پشتون، والد تاجک جبکہ نانی ہزارہ ہیں۔ اس لئے میں خود کو پشتون نہیں، افغان کہتی ہوں۔ میرے لئے اس بھی اہم بات یہ ہے کہ میں ایک سوشلسٹ اور فیمن اسٹ ہوں جو باچہ خان کو اپنا آئیڈیل مانتی ہے۔
آپ زمان پارک کے رہائشی جب ’وحشی پشتونوں‘ کے جتھوں پر چیخ پکار کر رہے تھے تو میں سوچ رہی تھی کہ اگر پشتون ہتھیار نہ اٹھائے تو آپ اسے انڈیا کا ایجنٹ بنا دیتے ہیں۔ باچہ خان سے زیادہ مہذب اور پر امن عوامی شخصیت کم از کم اس خطے کی تاریخ میں شائد ہی گزری ہو۔ جب زمان پارک کی خیبر پختونخواہ میں حکومت قائم ہوئی تو باچہ خان بارے ابواب سکول کی کتابوں سے خارج کرا دئیے گئے۔
یقین کیجئے! مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا آپ زمان پارک والے ’وحشی پشتونوں‘ سے چاہتے کیا ہیں؟
اجازت چاہوں گی۔
فقط۔
آپ کی بہن۔
کریمہ
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔