پاکستان

رجسٹرار صاحب یہ ’کاکول اکیڈمی‘نہیں قائد اعظم یونیورسٹی ہے

حارث قدیر

پاکستان کی معروف جامعہ قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار راجہ قیصر احمد نے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹرپر ایک تفصیلی خط تحریر کرتے ہوئے جامعہ میں اپنے کئے گئے تمام طلبہ دشمن اقدامات کو جواز مہیا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جامعہ میں طلبہ کی تمام سرگرمیوں کو تعلیم دشمن قرار دیا ہے اور جامعہ میں داخلوں کی کمی کا الزام بھی طلبہ پر ہی دھر لیا ہے۔

راجہ قیصر کا تعلق پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر سے ہے اور وہ قائد اعظم یونیورسٹی میں حالیہ تنازعات کے دوران رجسٹرار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اس دوران جامعہ کی اراضی کو ایک بائی پاس شاہراہ کی تعمیر کیلئے اسلام آباد کے ترقیاتی ادارہ (سی ڈی اے) نے قبضہ کیا اور جامعہ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے درمیان سے سڑک تعمیر کرنے کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ جامعہ کی زمین کو بچانے کیلئے طلبہ اور کچھ اساتذہ احتجاج کرتے رہے، تاہم وائس چانسلر اور رجسٹرار سمیت پورے جامعہ انتظامیہ اس معاملے پر کوئی جاندار کردار ادا نہیں کر سکی۔

دوسری طرف طلبہ کے مابین ہونے والے ایک جھگڑے کو بنیاد بنا کر جامعہ کو غیر معینہ مدت تک بند کیا گیا۔ طلبا و طالبات کو رات گئے ہاسٹلوں سے نکال باہر کیا گیا اور تعلیمی ادارے کے اندرسکیورٹی فورسز کو طلب کر کے طلبہ کو تشدد اور گرفتاریوں کا نشانہ بنایا گیا۔

تاہم یونیورسٹی انتظامیہ، طاقتور مافیا اور ریاستی اداروں کیلئے یہ اہم فریضہ سرانجام دینے والے رجسٹرار کو ان کی خدمات کا صلہ یوں دیا گیا کہ نئے وائس چانسلر کی تقرری کے ساتھ ہی رجسٹرار کو عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔

راجہ قیصر احمد کا موقف کیا ہے؟

سابق رجسٹرار نے جامعہ کی بتدریج زوال کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا تمام تر الزام نسلی کونسلوں کے ناقابل تسخیر اثر و رسوخ حاصل کرنے پر ڈال دیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ”یہ کونسلیں متشدد ہیں، حقیر اخلاقیات، عامیانہ دانش، محدود پیشہ وارانہ صلاحیت اور سطحی انتشاری جبلت کے ساتھ جھوٹے تکبر کی وارث ہیں۔ بدعت اورطعن و تشنیع پر انحصار، صنفی حساسیت کو نظر انداز کرنا، برتری کی سرپرستی اور زہریلا شاؤنزم عام ہو چکا ہے۔ یہ سب کچھ یونیورسٹی کیلئے شرمندگی کا باعث ہے اور یونیورسٹی کی بار بار بندش، منشیات کی کھپت اور لاقانونیت نے اس ادارے کو زوال پذیر کر دیا ہے۔ جھونپڑیاں منشیات کے اڈے اور ہاسٹل غیر قانونی مکینوں کی محفوظ پناہ گاہیں تھیں۔ اصل وقتی علاج یہ تھا کہ ان دو پریشانیوں پر قابو پا لیا جائے۔ جھونپڑیوں کا انہدام اور ہاسٹلز کو خالی کرنا ناگزیر تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ حقیقی طالب علموں اور محققین کو، جن کا اس گندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا، تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، لیکن حالات کی ضرورت تھی کہ مزید کسی بھیانک واقع سے بچ سکیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ اس یونیورسٹی کی بدانتظامی کو اکثر اس یونیورسٹی کی خوبصورتی سمجھا جاتا ہے۔ آزادی اور لاقانونیت کے درمیان فرق کی ایک واضح لکیر ہے۔“

انہوں نے لکھا کہ ”میں 18 ممالک کا دورہ کر چکا ہوں اور ایک بھی ایسی یونیورسٹی نہیں دیکھی جہاں غیر مجاز رسائی ممکن ہو یا آپ آزادی کے زور پر دوسری کمیونٹی کے طلبہ کا سر توڑ دیں۔ یہ سراسر جرم ہے۔ سب سے زیادہ اذیت ناک حصہ بدمعاشوں کے ہاتھوں اساتذہ کی کردار کشی ہے، جو ان کی کمزور پرورش کی عکاسی کرتا ہے۔ طلبہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ یہاں سیاسی رہنما بننے کے لیے نہیں ہیں بلکہ کیریئر پر مبنی جاندار افراد بننے کے لیے آئے ہیں۔ مؤثر کیمپس مینجمنٹ کو دنیا کے کسی بھی حصے میں کبھی بھی سیکیورٹائزیشن نہیں کہا جاتا ہے۔ اعلیٰ درجہ کی یونیورسٹی (جو بلاشبہ کونسلز کی وجہ سے نہیں ہے) کو غنڈوں اور بدمعاشوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ میں امید کرتا ہوں کہ کیمپس کی اصلاحات پر فیصلے کے مطابق عمل کیا جائے گا اور یہ یونیورسٹی اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت دوبارہ حاصل کر لے گی۔“

راجہ قیصر احمد کے موقف میں تضادات

سابق رجسٹرار کا نام راجہ قیصر احمد ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے قبیلے کی شناخت اپنے نام کے ساتھ لکھنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے قبیلے کو دوسرے قبیلوں سے برتر سمجھتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی ایک یا چند طالبعلم اپنی نسلی یا قومی شناخت کی بنیاد پر کوئی تنظیم بناتے ہیں تو اسے بدعت، برتر تعصب اور شاؤنزم سے تشبیہ دینا بھی عین فرض سمجھتے ہیں۔

تاہم یہ محض ایک پہلو ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے طالبعلموں کے مطابق ایک لمبے عرصے سے راجہ قیصر احمد رجسٹرار کے عہدے پر رہتے ہوئے جامعہ میں ’کشمیر کونسل‘ کے قیام کی کوشش کرتے رہے۔ تاہم انہیں اس عمل میں کامیاب نہ ہونے پر مجموعی طور پر کونسلوں سے ہی نفرت ہو گئی۔ یوں سابق رجسٹرار کے خیال میں ان کی شناخت والی کونسل کا قیام عین انسانی عمل ہے۔ تاہم اگر انہیں یہ موقع میسر نہ آسکا تو پھر ساری کونسلیں ہی غلط ہیں۔

طالبعلموں کو یہ درس دے رہے ہیں کہ وہ سیاسی رہنما بننے نہیں آئے بلکہ کیریئر کی بنیاد پر جاندار افراد بننے آئے ہیں۔ تاہم خود نہ صرف جامعہ کے معاملات پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر سیاست کرنے اور بیان بازی کرنے میں پیش پیش ہیں، بلکہ کشمیری شاؤنزم کی ترویج کی صورت اپنا سیاسی وجود بھی مسلسل برقرار رکھ رہے ہیں۔ جس کی واضح مثال مردم شماری کے سلسلہ میں جموں کشمیر کی شناخت کے خانہ کو فارم میں شامل کرنے کا انکا حالیہ مطالبہ ہے۔

صنفی حساسیت کو نظر انداز کئے جانے کا پہلو کونسلوں کی سرگرمیوں میں سے تلاش لیا گیا، تاہم رات کی تاریکی میں ایک ویران علاقے میں واقع یونیورسٹی کے ہاسٹلوں سے طالبات کو بیدخل کر کے بے یارو مدد گار چھوڑ تے وقت محترم رجسٹرار کو صنفی حساسیت کا پہلو شاید بھول گیا تھا۔

یہ واضح رہے کہ ہم جامعات میں نسلی بنیادوں پر تنظیموں کے قیام کا دفاع ہر گز نہیں کر رہے ہیں، لیکن ان تنظیموں کے قیام کی معروضی وجوہات کو دیکھے بغیر اس معاملے پر ہر گز بات نہیں کی جا سکتی۔ جس طرح سابق رجسٹرار لسانی تنظیموں کو تمام مسائل کی جڑ قرار دے رہے ہیں، یہ عنصر ان کی عامیانہ دانش کو واضح کر رہا ہے۔

لسانی تنظیموں کا قیام

طلبہ یونین پر پابندی اور تعلیمی اداروں میں ہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندیوں نے طلبہ سیاست کا خاتمہ کیا۔ ریاست اور تعلیمی مافیا کی ملی بھگت سے لسانی، گروہی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے قیام کی راہ ہموار کر کے طلبہ کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ بظاہر غیر سیاسی مقاصد کیلئے قائم ہونے والی لسانی تنظیمیں لاشعوری طور پراپنائے جانے والے سیاسی عمل کے نتیجے میں اپنا سیاسی اظہار کرنا شروع ہو گئیں۔

طلبہ کو تقسیم کر کے انکا استحصال جاری رکھنے اور انہیں روبوٹ بنانے کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے قائم کی گئی یہ تنظیمیں اب آہستہ آہستہ طلبہ کے حقوق کی بات کرنا شروع ہو گئی ہیں، جس وجہ سے تعلیمی اداروں میں ان تنظیموں کو اب طلبہ یونین پر پابندی کے جواز کے طورپر پرتشدد بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ جہاں ہم طلبہ یونین کی بحالی اور طلبہ کو سیاسی سرگرمیا ں کرنے کا حق دینے کا مطالبہ کرتے ہیں، وہاں طالبعلموں کو اپنی قومی و مذہبی شناخت، زبان اور کلچر کی بنیاد پر تہوار منانے، اجتماع کرنے اور آزادانہ سرگرمیاں کرنے کے حق کا بھی دفاع کرتے ہیں۔ تاہم ساتھ ہی طلبہ کو قومی، لسانی، نسلی، گروہی، مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر تقسیم کرنے اور نفرتیں ابھارنے کے عمل کی سخت مخالفت بھی کرتے ہیں۔

حالیہ اقدامات کی وجوہات

قائد اعظم یونیورسٹی میں کونسلوں کی لڑائی ان پابندیوں اور سکیورٹائزیشن کی بنیادی وجہ نہیں ہے، بلکہ جامعہ انتظامیہ اور حکمرانوں کی طرف سے ہاسٹل مافیا کو نوازنے، جامعہ کی قیمتی اراضی کو ہڑپ کرنے اور جامعہ کے باہر طلبہ کی سیاسی و نظریاتی بیٹھک کا ایک تاریخی تسلسل رکھنے والے ڈھابوں (ایسی جھونپڑیاں جہاں طلبہ سستے داموں چائے، دیگرمشروبات اور کھانے پینے کی اشیا خریدنے کے علاوہ سیاسی و ادبی سرگرمیاں منظم کرتے ہیں) کو ختم کر کے کارپوریٹ مافیا کو کینٹین اور کیفے ٹیریا کے ٹھیکے الاٹ کرنے کی راہ میں ان تنظیموں کا رکاوٹ بننابنیادی وجہ ہے۔

ان سارے اقدامات میں سابق رجسٹرار پیش پیش رہے ہیں۔ جامعہ کی اراضی کو سی ڈی اے کے قبضے میں دے دیا گیا ہے۔ ہاسٹل الاٹمنٹ کیلئے سخت گیر قوانین اور پابندیوں کے نفاذ کے بعد بائی پاس سڑک بننے سے بہارہ کہو کے علاقے میں موجود ہاسٹل مافیا کو نوازنے کی راہ بھی ہموار کر لی گئی ہے۔ سڑک کیلئے دی گئی اراضی پر طالبات کیلئے ہاسٹل اور لیبارٹریز کی تعمیر کا منصوبہ زیر غور تھا، جو اب مکمل نہیں ہو سکے گا۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پولیس گردی اور طلبہ کی گرفتاریوں و تشدد کے بہانے جامعہ کو بند کرنے کے پیچھے بجٹ خساروں کا بھی عمل دخل ہے۔ جس کی وجہ سے جامعہ کو بند کر کے اگلے بجٹ تک آن لائن کلاسیں لینے کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ ان تمام اقدامات میں 18 ملکوں کی سیر کرنے والے رجسٹرار موصوف کو استعمال کئے جانے کے بعد اب عہدے سے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔

تعلیمی ادارے اور فوجی تربیتی مرکز کا فرق

جامعات میں طلبہ یونین جیسا بنیادی حق طالبعلموں کو فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی سینڈیکیٹ میں طلبہ کے منتخب نمائندے کی عدم موجودگی میں دہائیوں سے طلبہ کے مستقبل کے بارے میں یکطرفہ فیصلے کر کے ان پر مسلط کئے جا رہے ہیں۔ تاہم 18 ملکوں کا دورہ کرنے والے سابق رجسٹرار نے ان ملکوں کی شاید کسی جامعہ کے اندرجھانکنے کی کوشش نہیں کی ہو گی۔ نہیں تو یہ ضرور بتاتے کہ ہر جامعہ میں طلبہ یونین موجود ہوتی ہے۔ کسی جامعہ میں ہاسٹل الاٹمنٹ کیلے اس طرح کا بیان حلفی نہیں لیا جاتا، جو رجسٹرار موصوف نے قائد اعظم یونیورسٹی کے ہاسٹل کیلئے ترتیب دے رکھا ہے۔

’کیمپس مینجمنٹ‘ کی اصطلاح تو شاید کسی جامعہ کے بورڈ پر لکھی پڑھ لی ہو، تاہم کیمپس مینجمنٹ کے اصول اپنی فسطائی اور آمرانہ سوچ اور عامیانہ دانش کی بنیاد پر ہی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی جامعات تو درکنار سیکنڈری تعلیمی اداروں میں بھی کیمپس مینجمنٹ کے نام پر کہیں سکیورٹی فورسز کو تعینات نہیں کیا جاتا۔ طلبہ کے مل بیٹھنے، سیاسی، ادبی اور ثقافتی گفتگو و مباحثے کرنے، مرضی کا لباس پہننے کے حق کے علاوہ ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ تعلیمی ادارے کی انتظامیہ اپنے فرائض کی انجام دہی اور طلبہ کو حقوق فراہم کرنے کے بعد قواعد کے اجرا و نفاذ پر توجہ دیتی ہے۔

تعلیمی ادارے اور فوجی تربیتی مرکز میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ تعلیمی ادارے میں طلبہ کو ذہن کشادہ کرنے، تحقیقی کرنے، سوال کرنے، سوچنے اور آزادانہ طور پر سرگرمی کرنے کا حق اور تعلیم دی جاتی ہے۔ تاہم فوجی تربیتی مرکز میں اس کے یکسر متضاد ڈسپلن کی تربیت دی جاتی ہے۔ فوجی مرکز میں سوال کرنے کی بجائے احکامات کی بجاآوری سکھائی جاتی ہے، جنگی اور فوجی قواعد سے باہر دیکھنے پر پابندی عائد ہوتی ہے، آزادانہ سرگرمیوں کو ڈسپلن کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے اور سیاست سے لاتعلقی بنیادی حلف کا حصہ ہوتی ہے۔

کسی بھی تعلیمی ادارے میں مسلح اہلکاروں کے داخلے پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ جامعہ ایک خود مختار ادارہ ہوتی ہے، جس کے اندر فورسز کا داخلہ جامعہ کی توہین شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم رجسٹرار موصوف کی کیمپس مینجمنٹ کچھ اسطرح ہے کہ انہوں نے کیمپس کے اندر مسلح سکیورٹی فورسز کو نہ صرف تعینات کروا دیا، بلکہ یونیورسٹی انتظامیہ کے مذموم مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بننے والے طلبہ کو چن چن کر گرفتار ی اور تشدد کا نشانہ بنوانے میں پیش پیش رہے ہیں۔

ہاسٹل الاٹمنٹ کا حلف نامہ اور نجی ہاسٹل مافیا

پرائیویٹ ہاسٹل مافیا کو نوازنے کیلئے جامعہ کے ہاسٹل کی الاٹمنٹ پر جو حلف نامہ ترتیب دیا گیا ہے، اس پر دستخط کر کے ہاسٹل اور رہائش کم جیل کے قید خانے کا تاثر زیادہ قائم ہوتا ہے۔

نظر ثانی شدہ ہاسٹل پالیسی کے مطابق طالبعلم حکام کی ہدایت کے مطابق ہاسٹل خالی کرنے کا پابند ہو گا، حکام کسی بھی وقت الاٹمنٹ تبدیل کر سکتے ہیں، طالبعلم کسی نسلی کونسل یا سیاسی سرگرمی میں کبھی شامل نہیں ہو گا، شناخت کے بغیر ہاسٹل میں داخل نہیں ہو سکے گا، مہمان ساتھ نہیں لا سکے گا، اے سی، کولر یا ہیٹر نہیں لگا سکے گا، کمرہ شفٹ یا تبدیل بھی نہیں کر سکے گا، ہر موسم گرما میں ہاسٹل خالی کرے گا اور تعطیلات کے بعد دوبارہ الاٹمنٹ کیلئے دھکے کھائے گا۔ اس کے علاوہ دیگر شرائط و ضوابط بھی ہیں، جن کے بعد طالبعلم ترجیح دے گا کہ وہ نجی ہاسٹل میں ہی پناہ لے۔

اس مقصد کیلئے بائی پاس سڑک یونیورسٹی کی زمین پر قبضہ کر کے تعمیر کر لی گئی ہے اور بہارہ کہو کے ہاسٹلز یونیورسٹی کے قریب ترین ہو جائیں گے۔ یوں ہاسٹل مافیا کے وارے نیارے ہوجائیں گے اور سابق رجسٹرار جامعہ کی دن دگنی اور رات چگنی ترقی کیلئے دعا گو رہیں گے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔