فاروق سلہریا
ایمازن بیسن میں اس سال جنگل میں آگ لگنے کے 2 لاکھ واقعات ہو چکے ہیں۔
جنگل میں آگ کی وجہ سے تقریباً تین کروڑ (29 ملین) ایکڑ پر محیط جنگلات جل کر خاکستر ہو گئے ہیں۔ یہ تباہی زیادہ تر برازیل میں ہوئی ہے۔
ادہر جنگلی حیات اور ماحولیات کے لئے کام کرنے والے کارکنوں نے بدھ کے روز بتایا ہے کہ بولیویا میں مئی کے مہینے میں لگنے والی آگ میں اب تک بیس لاکھ جانور جل کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ مئی میں شروع ہونے والی اس آگ پر ہنوز قابو نہیں پایا جا سکا۔ اگست کے مہینے میں اس آگ نے کافی شدت پکڑ لی تھی۔ برازیل کے بر عکس بولیویا کی حکومت نے اس آگ کو بجھانے کے لئے زیادہ سنجیدہ اقدامات کئے مگر اس آگ پر قابو پانا ابھی باقی ہے۔ ایمازن میں آگ لگنے کی ایک بڑی وجہ انسانی غلطی بھی ہے مگر اس میں حکومتوں کا کردار اور ان کی معاشی پالیسیاں بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں۔
اس کی مثال برازیل کے حوالے سے ہم بار بار ان صفحات پر دے چکے ہیں۔ برازیل کی خطرناک مثال کی توثیق اب انڈونیشیا کے واقعات سے بھی ہو رہی ہے۔
بدھ کے روز انڈونیشیا بھی جنگل میں آگ لگنے کے واقعات کی وجہ سے خبروں میں تھا۔ شاید دنیا بھر کے اخبارات نے ایک تصویر شائع کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جنگل میں آگ کی وجہ سے انڈونیشیا میں آسمان سرخ ہو گیا ہے۔ انڈونیشیا پچھلی تقریباً دو دہائیوں سے پام آئل کی برآمد سے اربوں روپے کما رہا ہے۔ پام آئل کی پیداوار میں اضافے کے لئے ایک طرف تو جنگلات کو دھڑا دھڑ کاٹا گیا ہے، دوسری جانب جنگلات کو صاف کرنے کے لئے آگ لگائی جاتی ہے۔
یہ تقریباًوہی طریقہ کار ہے جو پاکستان اور ہندوستان کے کسان بھی استعمال کرتے ہیں کہ فصل کاٹنے کے بعد کھیت کو آگ لگائی جاتی ہے۔ یہ آگ اکثر اوقات قابو سے باہر ہو جاتی ہے۔ یہ محاورہ کہ”آگ سے مت کھیلو“خواہ مخواہ نہیں بنا تھا۔
بدھ کے روز انڈونیشیا کے سماٹرا اور بورنیو نامی جزیرے آگ کی لپیٹ میں تھے۔ یہ انڈونیشیا کے بڑے جزیرے شمار ہوتے ہیں۔ انڈونیشیا میں جنگل کو آگ لگنے کے 80 فیصد واقعات انسانی غلطی کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ اتفاق سے بدھ کے روز ہی جدوجہد میں راقم کا کیوبا کے بارے میں مضمون شائع کیا گیا تھا جس میں ثابت کیا گیا تھا کہ اگر ریاست بہتر منصوبہ بندی کر رہی ہو اور معیشت سوشلزم کے اصولوں پر استوار کی جا رہی ہو تو معاشی ترقی بھی ممکن ہوتی ہے اور ماحولیات کو بھی بچایا جا سکتا ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔