لاہور (جدوجہد رپورٹ) انسانی حقوق کے معروف گروپ ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستان کی 100 سے زائد جیلوں میں کم از کم 88 قیدی ہیں، جبکہ سرکاری طور پر منظور شدہ گنجائش 65168 ہے۔ ’الجزیرہ‘ کے مطابق بدھ کو جاریہونے والی 55 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ بھیڑ نے صحت کے مسائل کو بڑھا دیا ہے اور قیدی متعدد بیماریوں کا شکار ہیں۔
رپورٹ کا عنوان’ہر ایک کیلئے ڈراؤنا خواب: پاکستان کی جیلوں میں صحت کا بحران‘ ہے۔ رپورٹ میں جیلوں کی گنجائش سے زیادہ رکھے گئے قیدیوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ملک کے فوجداری انصاف کے نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیل کے کچھ سیلوں میں 15 قیدی تھے، جو صرف 3 لوگوں کیلئے بنائے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ ’اوورکراؤڈڈ‘ جیلوں والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے قیدی بنیادی صحت کی ضروریات کیلئے بھی ادویات اور علاج تک رسائی سے قاصر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق قیدیوں کو غیر صحت بخش حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہیا ور جیل میں جوئیں، پسو، خارش اور جلد کی بیماریاں عام ہیں۔ رپورٹ میں قیدیوں کو درپیش حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جن میں تشدد، امتیازی سلوک اور قانونی امداد تک رسائی کی کمی شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین قیدیوں کو بڑے پیمانے پر بدسلوکی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وکلا اور حقوق کے کارکنوں کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کواتین خاص طور پر مرد جیل محافظوں کی طرف سے بدسلوکی کا شکار ہیں، جن میں جنسی حملے، عصمت دری کے علاوہ کھانے اور دیگر سہولیات کے بدلے جنسی تعلقات میں ملوث ہونے کیلئے دباؤڈالا جا رہا ہے۔
خواتین کی ماہواری کی حفظان صحت کو خاص تشویش اور نظر انداز کرنے والے شعبوں میں سے ایک کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ انہوں نے 9 سابق قیدی خواتین سے بات کی، جن میں سے 3 نے کہا کہ انہیں سینیٹری پیڈ معمول کے مطابق فراہم نہیں کئے گئے۔
ایک سابق خاتون پولیس اہلکار نے کہا کہ ’ایک بنیادی مسئلہ سینیٹری نیپکن کو ایک ضرورت کی بجائے لگژری آئٹم یا طبی آٹم کے طور پر دیکھنا ہے۔‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیلوں میں ناقص حفظان صحت کی وجہ سے قیدیوں میں تپ دق کا مرض لاحق ہوتا ہے، جو کہ عام آبادی کے مقابلے میں جیلوں میں 29 فیصد تیزی سے پھیلتا ہے۔
رپورٹ نے قیدیوں کیلئے طبی عملے کی کمی کی بھی نشاندہی کی ہے۔ قیدیوں کی ایک بڑی تعداد 60 سال سے زائد عمر کی ہے اور وہ صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تمام جیلوں کیلئے میڈیکل آفیسرز کیلئے نامزد آسامیوں کی تعداد 193 تھی، لیکن 2020ء تک ان میں سے 105 خالی تھیں۔
رپورٹ کے مصنف اور ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈویژن کے سینئر وکیل سروپ اعجاز نے کہا کہ’بوسیدہ جیل کا نظام غیر فعال اور غیر مساوی فوجداری نظام انصاف کا نتیجہ ہے۔‘انکا کہنا تھا کہ ’مسئلے کا پیمانہ بہت بڑا ہے۔ تاہم حکومت نوآبادیاتی دور کے فرسودہ قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لاکر فوری طور پر اصلاح کر سکتی ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’زیادہ ہجوم سے نمٹنے کیلئے ضمانتی قوانین میں اصلاح کی جانی چاہیے۔ پاکستانی جیلوں میں زیادہ تر قیدیوں کو ابھی تک سزا نہیں سنائی جا سکی۔‘ سابق آئی جی پولیس احسان غنی خان نے کہا کہ فوجداری نظام انصاف کے چار ستونوں پولیس، استغاثہ، عدلیہ اور جیل میں سے آخری یعنی جیل سب سے زیادہ نظر انداز رہے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ’جب بھی ہم نظام میں اصلاحات کے بارے میں بات کرتے ہیں تو تقریباً ہمیشہ پولیس پر ہی توجہ دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ پولیس کے نظام کو بہتر کرنے کیلئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انکا کہنا تھا کہ کمزور استغاثہ اور عدلیہ کے نتیجے میں جیلوں میں بہت زیادہ بھیڑ ہے۔ جیلیں جرائم کی نرسری ہیں اور قیدیوں کو مزید سخت کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ ہمیں جیل کے عملے کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے، انہیں تربیت دینے یا مالی وسائل دینے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، نگران دورے معائنہ کے نام پر مذاق ہیں۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ ’اگر نگرانی کو بہتر نہیں کرینگے اور وسائل فراہم نہیں کریں گے تو جیلیں کیسے بہتر ہوں گی۔؟‘