اویس قرنی
آج ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی جانب سے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کے طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ کے نام ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس میں ادارے کی پالیسی اور مملکت خدادکی نظریاتی اساس کی نئی تشریح پیش کی گئی۔ جس کے مطابق پچھلے دنوں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طلبہ کی جانب سے ہولی کے منائے جانے پر انتہائی ”تشویش“ کا اظہار کیا گیا اور اسے ایک ہندو تہوار گردانتے ہوئے ملکی نظریاتی اساس کے برخلاف قرار دیا گیا۔ ہولی کا تہوار کتنا مذہبی اور کتنا ثقافتی ہے اس موضوع پر پھر کبھی تفصیل سے لکھا جا سکتا ہے۔ فی الوقت اہم بات ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ترجیحات اور اس کی جانب سے شائع کردہ اس مراسلے پر بحث کرنا ہے۔
ان کی اپنی منطق کے مطابق ایچ ای سی کا حالیہ مراسلہ اعتراف ہے کہ ہولی کے تہوار کے علاوہ تعلیمی اداروں میں سب کچھ ایچ ای سی کی پالیسیوں کے عین مطابق ہو رہا ہے۔ کیونکہ اس سے قبل کبھی اس نوعیت کا کوئی مراسلہ جاری نہیں ہوا۔ اس لیے اب اس پر بات کر نا انتہائی اہم ہو گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں ہو کیا رہا ہے۔
اس ضمن میں تعلیمی اداروں میں مذہبی و لسانی فسادات ایچ ای سی کی پالیسی اور ملکی نظریاتی اساس کے عین مطابق معلوم ہوتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں جمعیت کی غنڈہ گردی ایچ ای سی کی پالیسیوں کا نفاذ معلوم ہوتی ہیں۔ جمعیت کی سوچ اور ایچ ای سی کے حالیہ مراسلہ میں رتی برابر فرق بھی معلوم نہیں ہوتا۔ جمعیت بھی رقص، گیت و سنگیت اور رنگوں سے اسی طرح نالاں ہے جس طرح ایچ ای سی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے نازک جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔
ایچ ای سی کے اس مراسلے کے مطابق ان کو تعلیمی اداروں میں خون کی ہولی کھیلے جانے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن رنگوں کی ہولی سے ادارہ جاتی پالیسی اور ملکی نظریات خطرے میں ہیں۔ 2017ء میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں مشال خان کے وحشیانہ قتل پر ایچ ای سی نے ایسی کوئی پھرتی نہیں دکھائی۔ نہ ہی ان ریاستی ذمہ داران کے جذبات 2014ء میں اے پی ایس کی قتل و غارت پر مجروح ہوئے جب ننھے پھولوں کو مذہبی جنونی دہشتگردوں نے مسل دیا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج تک ان 134 بچوں کو انصاف نہیں مل سکا اور ان کے والدین آج بھی سراپا احتجاج ہیں۔ آج بھی ریاست گڈ اور بیڈ طالبان کی انہی پالیسیوں پر کاربند ہے۔
شاید تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو زد و کوب کیا جانا‘ حتیٰ کہ سنگین الزامات کی بنیاد پر اساتذہ کو قید تنہائی میں کال کوٹھڑیوں میں ڈالنا ایچ ای سی کی پالیسیوں کے عین مطابق ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، ڈاکٹر عمار علی جان، صحافی محمد حنیف وغیرہ کو نوکریوں اور تعلیمی اداروں سے نکال دینا ایچ ای سی کی پالیسیوں کا تسلسل ہی معلوم ہوتاہے۔ جبکہ بہاؤالدین یونیورسٹی ملتان کے پروفیسر جنید حفیظ کو کسی سنوائی کے بغیر قید تنہائی میں رکھنا اور موت کی سزا دینا ریاست کی نظریاتی اساس کے تحفظ کی ضمانت ہے۔
تعلیمی اداروں میں خودکشیوں اور مبینہ طور پر قتل کی وارداتوں پر ایچ ای سی کی مکمل خاموشی اور ہولی کے تہوار کے انعقاد پر مراسلوں کا اجرا ادارے کی ترجیحات کا واضح پتہ دیتا ہے۔ پاکستان کا بوسیدہ تعلیمی نظام، نصاب، تعلیمی اداروں کا ماحول اور انفراسٹرکچر نوخیز ذہنوں کو آسودگی اور روشن خیالی دینے کی بجائے رجعت، قدامت پرستی اور دقیانوسیت کے دباؤ میں لا کر زندہ درگور کرتا جا رہا ہے۔ آئے روز تعلیمی اداروں میں خودکشیوں کی خبریں سننے کو ملتی ہیں لیکن اس کے سدباب کی کوئی کاروائی یا اعلامیہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ یہ نوجوان نسل کا بے رحمانہ قتل ہے جن کے ذمہ داران یہ پالیسی ساز ہیں۔
تعلیمی اداروں خاص طور پر اعلیٰ تعلیمی جامعات میں خصوصاً خواتین کی ہراسانی کے واقعات مسلسل شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کے طالبات ہاسٹلز کے باتھ روموں میں سکیورٹی اہلکاروں کی مل بھگت سے کیمرے نصب رہے۔ احتجاجات بھی ہوئے اور مظاہرے بھی لیکن ایچ ای سی کے جذبات رتی برابر بھی مجروح نہ ہوئے۔ تعلیمی اداروں میں طالبات کو بلیک میل کرنے کے پورے کے پورے نیٹ ورک موجود ہیں جس میں انتظامیہ، پروفیسراور وارڈن تک ملوث ہیں لیکن مجال ہے کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں آئی ہو یا مراسلہ جاری کیاگیا ہو۔ کیونکہ اس حمام میں اوپر سے لے کر نیچے تک سب ننگے ہیں اور سبھی ایک دوسرے کے کالے کرتوتوں پر پردے ڈالتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں بھاری فیسوں کے عوض طلبہ کو جو ناکارہ قسم کی سہولیات دی جاتی ہیں آج تک ایچ ای سی کے ذمہ داران نے اس پر لب کشائی تک نہیں کی۔ فیس کے چالان فارموں میں درجنوں مختلف رنگ برنگی مدوں میں ہر طالبعلم سے دسیوں ہزار روپے ہر سمسٹر اینٹھے جاتے ہیں لیکن آج تک اس پر کوئی ادارہ نہیں بولا نہ ہی کو نوٹس یا مراسلہ جاری ہوا۔ اور جو سہولیات پیسے لینے کے باوجود مہیا کی جاتی ہیں وہ اذیتوں میں مزید اضافے کا ہی موجب بنتی ہیں۔
آئے روز بسوں کے پوائنٹس کے ناکارہ اور کھٹارہ پن کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ کئی نوجوان تاحیات معذور ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر طالبات کے لیے تو یہ مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کئی مہینوں سے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کی طالبات بہتر ٹرانسپورٹ کے لیے سراپا احتجاج ہیں لیکن نہ انتظامیہ کے کان پر جوں رینگی اور نہ ان کی صدا ایچ ای سی کے کانوں تک پہنچی۔ سندھ یونیورسٹی میں تو حادثات کی وجہ سے باقاعدہ جانوں کا ضیاع ہوا لیکن تمام ادارے اور ذمہ داران آج تک بے حس خاموشی میں مبتلا ہیں۔
تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز شدید گرمیوں میں تندور بن جاتے ہیں۔ متعدد کمرے ایسے ہیں کہ جہاں نہ کھڑکی ہے اور نہ ہی کوئی روشندان۔ اور جہاں کھڑکی نصیب ہو بھی جائے تو تعمیرات کا ایسا بے ہنگم پن ہے ایک عمارت سے دوسری عمارت کا درمیانی فاصلہ مشہور زمانہ پرانے لاہور کی گلیوں سے بھی تنگ ہے جہاں سے ہوا کی ترسیل کم و بیش ناممکن ہو جاتی ہے۔ اوپر سے لوڈ شیڈنگ کا عذاب مسلسل ہے۔ طلبہ کو ہاسٹلز میں ائیر کولر تک رکھنے تک کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی ٹھٹھرتی سردیوں میں گرمائش کا ساماں مہیا ہے۔ اور ڈربے نما ان ہاسٹلز میں سیٹ کا ملنا بذات خود جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ چار سیٹوں والے کمرے میں چھ سے سات بچوں کو گھسیڑا جاتا ہے۔ اور پھر تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز میں جمعیت جیسی غنڈہ گرد تنظیموں کے قبضے ہیں جن کی مکمل سرپرستی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کرتی ہے۔ اور ایچ ای سی کے حالیہ مراسلے سے اس ادارے کی پالیسیوں کا جو تعین دیکھنے کو ملا ہے کوئی شک نہیں کہ ایچ ای سی جیسا ادارہ بھی ان غنڈہ گرد تنظیموں کی بدمعاشی پر شعوری طور پر آنکھیں موندھے ہوئے ہے۔
پاکستان کی مجموعی معاشی و سماجی کیفیت ایسی ہے کہ نوجوان ہر قیمت پر یہاں سے نکلنے کی مسلسل کاوشوں میں ہیں۔ انہیں نہ روزگار کی امید ہے نہ مستقبل کی بہتر زندگی کی کوئی آس۔ اس لیے تو یہاں سے بھاگ نکلنے کی خاطر سمندر بُرد ہونے کے خطرے سے بھی نہیں گھبراتے۔ یہ درست ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے توسط سے ہر سال ہزاروں ہونہار نوجوان سکالر شپس کے حصول سے ذریعے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ انتہائی ہونہار لڑکے اور لڑکیاں ایچ ای سی کے ماہانہ وظیفے کی بنیاد پر دیارِ غیر میں زندگی کا نظام چلانے کے اہل ہوتے ہیں۔ مگر ایچ ای سی نے اب یہ وطیرہ بنا لیا ہے ملک بدر ان نوجوانوں کے وظیفے کئی کئی مہینے تک تعطل کا شکار رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ پی ایچ ڈی سکالر نوجوان، جن کی توانائیاں تعلیم پر صرف ہونی چاہیے، معمولات زندگی چلانے کے لیے معمولی نوکریوں میں ضائع ہوتے جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ اب شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جبکہ ایچ ای سی نے تعلیمی اداروں میں رقص و ہولی پر قدغن لگانے کو اپنی بنیادی ذمہ داری کے طور پر متعین کیا ہوا ہے۔
سب سے بڑھ کر ہائر ایجوکیشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری تعلیمی معیار میں اضافے سمیت نئی یونیورسٹیوں کا قیام ہے۔ ہر نئی حکومت میں نئے تعلیمی اداروں کے دعوے ہوتے ہیں۔ بڑے پراجیکٹس کا اعلان ہوتا ہے۔ لیکن نتیجہ صفر ہے۔ اس حوالے سے ایچ ای سی کی جانب سے آج تک کوئی ایک احتجاجی مراسلہ بنام حاکمیت دیکھنے کو نہیں ملا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور تعلیم کے بجٹ میں مسلسل کٹوتیاں ہوتی رہیں جن کے خلاف طلبہ سراپا احتجاج رہے لیکن جس ادارے کی بجٹ کٹوتی ہوئی وہ خاموش تماشائی بنے رہے۔ کنٹریکٹ پر بھرتیاں جاری رہیں۔ چاپلوسی اور سفارش کے بنیاد پر اعلیٰ عہدیداران کا تعین ہوتا رہا اور بچا کھچا بجٹ عیاشیوں اور مراعات پر صرف ہو تا رہا۔ اس ضمن روزنامہ جدوجہد پر شائع ہونیوالے مضمون بعنوان ”اکیڈیمیا کی فرح گوگی: عطا الرحمن کے ناکام منصوبے، اربوں کا ضیاع“ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جس پر ایچ ای سی نے ذرا برابر جنبش نہ دکھائی۔
پاکستان کے بڑے تعلیمی اداروں میں آئے روز تعلیمی سرگرمیاں بندش کا شکار رہتی ہیں۔ طلبہ و اساتذہ اپنے جائز حقوق کے لیے سراپا احتجاج رہتے ہیں۔ ایچ ای سی اس ضمن میں معاملات کے حل کی بجائے حکومتی بی ٹیم کی صورت خاموش رہتا ہے۔ بلکہ کئی معاملات میں تو خود ریاستی یلغار کا موجب بن جاتا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کئی مہینوں تک بند رہی۔ مطالبہ نااہل وائس چانسلر کی معطلی اور تعلیمی ادارے میں ریاستی تھانیداری کا خاتمہ تھا۔ اس وقت بھی جب یہ مراسلہ بھیجا جا رہا ہے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ہزاروں طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ وائس چانسلر سپیشل سمسٹر کا اعلان کر چکا ہے جبکہ ایچ ای سی لکھت میں اس سمسٹر کو روکنے کا فرمان جاری کر چکا ہے۔ کسی کو کوئی اندازہ نہیں کہ اب کیا کیا جائے! ہزاروں طلبہ کے سروں پر تلوار لٹک رہی ہے جبکہ ایچ ای سی کی ترجیحات گنگناتے طلبہ کو گونگا اور بہرہ کر دینا ہے۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جس ایگزیکٹو ڈائریکٹر محترمہ شائستہ سہیل کے نام سے حالیہ مراسلہ جاری کیا گیا ہے چند ماہ قبل ملک کے سب سے بڑے اور اہم تعلیمی ادارے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پہلے پولیس اور بعد میں رینجرز کی تعیناتی بھی انہی کے زیر نگرانی ہوئی تھی جب وہ قائداعظم یونیورسٹی کی قائم مقام وائس چانسلر تھیں۔ جبکہ ایچ ای سی کا مذکورہ عہدہ بھی سنبھالے ہوئے تھیں۔
مختصر یہ کہ یہاں تعلیمی اداروں کی اندر سے نوجوان اغوا ہوتے رہیں، قتل و غارت میں مرتے رہیں، انسانی بھیس میں درندے طالبات کو جنسی ہراسانی اور بلیک میلنگ کے ذریعے نوچتے رہیں، طلبہ بنیادی سہولیات کو ترستے رہیں، روشن خیال اساتذہ کی تذلیل ہوتی رہے، طلبہ یونین پر پابندی رہے، تعلیمی اداروں کو چھاؤنیاں بنایا جاتا رہے، پروفیسرز، اساتذہ و دیگر عملے کی تنخواہوں میں کٹوتیاں ہوتی رہیں‘ ایچ ای سی خاموش تماشائی لیکن حبس کے اس بے رنگ ماحول میں اگر طلبہ خود کو رنگوں میں رنگ کر رقص کریں تو ایچ ای سی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر صاحبہ کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور ریاستی نظریات خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ اس سب کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس ملک میں خون کی ہولی تو ہو سکتی ہیں لیکن رنگوں کی ہولی ممنوع ہے!