قیصر عباس
افغانستان دنیا میں انسانی حقوق کے بحران کی جیتی جاگتی مثال بن گیا ہے اور ملک کے دو تہائی شہری بدترین حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ملک میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی اور آزادیئ اظہار پر قدغنوں کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو سال قبل اقتدار سنبھا لنے کے بعدطالبان کی حکومت افغانستان کے طول وعرض میں عورتوں، بچیوں اور میڈیا کارکنوں پر سخت ترین پابندیاں لگاکر ان کے بنیادی حقوق سلب کررہی ہے۔عورتوں کی ملازمت، حصول ِتعلیم اور سماجی سرگرمیوں پر پابندیاں ہیں اور صحافیوں پر سنسرشپ عائد کردی گئی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے محقق فرشتہ عباسی نے مطالبہ کیاہے کہ ”طالبان کی لیڈرشپ افغانستان میں غیر انسانی پالیسیوں اور ضوابط ختم کرکے سماجی آزادیاں بحال کرے۔ بین الاقوامی کمیونٹی بھی طالبان کو موجودہ بحران کا ذمہ دارٹھہراکراسے ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔“
گزشتہ سال دسمبر میں صحت، خوراک اور تعلیمی شعبوں کے علاوہ تمام غیر سرکاری تنظیموں میں عورتوں کی ملازمتوں پر پابندیاں لگائی گئیں اور بچیوں پر سیکنڈری اور ہائی اسکول کے دروازے بند کر دیے گئے جن کے نتیجے میں عورتوں کی غربت میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
فرشتہ عباسی کے مطابق ”ان پالیسیوں کے تحت نہ صرف سماجی کارکنوں بلکہ عام عورتوں اور بچیوں پر زندگی تنگ کردی گئی۔“ ملک میں صحافیوں پر سنسرشپ کی پابندیاں ہیں اور بیرونی میڈیا کی نشریات بند کر دی گئی ہیں۔ طالبان سرکارکی انتقامی کاروائیوں کے خوف سے صحافی قومی مسائل پردیانتدارانہ اظہار رائے دینے سے قاصرہیں جس سے صحیح صورت حال کا اندازہ لگانا ممکن نہیں رہا۔
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں چار ملین لوگ غیرصحت مند غذا پر گزارہ کر رہے ہیں جن میں پانچ سال سے کم عمر کے تین ملین بچے بھی شامل ہیں۔ ملک کی تقریباً 28 ملین آبادی کے زیادہ تر لوگ اس سنگین بحران سے گزر رہے ہیں۔
سیاسی انتقام اورمہنگائی سے نجات حاصل کرنے کے لیے سینکڑوں افغان شہری نقل مکانی پر مجبو ر ہوئے اور ان میں سے بیشتر ایران، پاکستان، متحدہ عرب امارات اور ترکیہ میں کس مپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق آج افغانستان انسانی حقوق کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے لیکن طالبان کی حکومت اپنے اقدامات پر نظر ثانی کے بجائے صورت حال کو مزیدسنگین بنا رہی ہے۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔