پاکستان

دو ہزار سے زائد پاکستانی سالانہ خود کشی کرتے ہیں

علی مدیح ہاشمی

”میں تین الفاظ میں زندگی کے بارے میں سیکھی ہوئی ہر چیز کا خلاصہ کر سکتا ہوں: یہ جاری رہتی ہے“ رابرٹ فراسٹ(امریکی شاعر)

حال ہی میں میری والدہ نے مجھے کسی مریض سے ملنے کیلئے کہا۔ رات ہو چکی تھی اور میں دن بھر کے کام کے بعد آرام کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس نئے مریضوں کو لینے کا وقت نہیں ہے۔ تاہم، انہوں نے التجا کی کہ میں وقت نکالوں کیونکہ یہ شخص بہت بیمار تھا اور ممکنہ طور پر خودکشی بارے سوچ رہا تھا۔ میں نے اپنے کلینک کے مصروف شیڈول پر نظر ڈالی، تاکہ میں ایک پریشان حال شخص کیلئے وقت نکال سکوں، جو خود کشی بارے سوچ رہا ہے۔

10 ستمبر کو خودکشی کی روک تھام کا ایک اور عالمی دن منا یا گیا۔ اس موقع پرہمیں اپنے آپ کو باور کرانا ہو گا کہ پاکستان میں ہمیں کن حالات کا سامنا ہے…چونکہ ہماری معیشت بدستور خراب ہوتی جا رہی ہے اور زیادہ سے زیادہ خاندان بدحالی اور مایوسی کا شکار ہورہے ہیں، پاکستان جیسے ممالک میں پہلے ہی سے موجود بہت زیادہ ذہنی بیماریوں کا مزید پھیلاؤ ہو گا۔ بڑھتے ہوئے جرائم اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ، ہمیں خودکشی اور دیگر پرتشدد کارروائیوں سمیت ذہنی امراض کے ایک ’کامل طوفان‘ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

2003ء میں خود کشی کی روک تھام کی بین الاقوامی ایسوسی ایشن نے عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مل کر 10 ستمبر کو خودکشی کی روک تھام کے عالمی دن کے طور پر منایا۔ رواں سال کا تھیم’ایکشن کے ذریعے امید پیدا کرنا‘ ہے، جو 2021ء سے جاری ہے اور کئی شعبوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے: خودکشی کے حقیقی واقعات اور جان بوجھ کر خود کو نقصان پہنچانے کے لیے مزید تحقیق، جو خودکشی کی کوششوں کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مزید وکالت کرنا کہ طبی پیشہ ور افراد اور عام لوگ خودکشی کی کوششوں کو سنجیدگی سے لیں؛ اور ان لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے بہتر رسائی، جنہوں نے خودکشی کا سوچا یا خودکشی کرنے کی کوشش کی۔

ہمیں گھیرا ڈالے تمام بری خبروں میں ایک روشنی کی کرن گزشتہ سال کیا جانے والا نوآبادیاتی دور کے ایک قانون کا خاتمہ ہے،جو خودکشی کو جرم قرار دیتا تھا۔ یہ قانون 1800ء کی دہائی کا تھا اور بالآخر 2022ء کے آخر میں ذہنی صحت کی تنظیموں اور عوام کی طرف سے برسوں کی لابنگ اور وکالت کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔ اس قانون کے خاتمے نے متعدد مثبت تبدیلیوں کا راستہ صاف کر دیاہے۔ خودکشی کے پھیلاؤ کے بارے میں اب درست تحقیق کی جا سکتی ہے۔ ماضی میں یہ ناممکن تھا، کیونکہ مریض اور لواحقین مقدمہ چلائے جانے کے خوف سے اس کی اطلاع نہیں دیتے تھے۔ جیسا کہ اب خودکشی کے بارے میں زیادہ کھل کر بات کی جا سکتی ہے، اس لیے ہم پریشانی میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال کے لیے بہتر رسائی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں خودکشیوں کے بارے میں اعداد و شمار خوفناک ہیں 2019-20ء میں پاکستانی اخبارات میں 2300 خودکشیاں رپورٹ ہوئیں (یہ قانون کے منسوخ ہونے سے پہلے کے اعداد و شمار ہیں اور غالباً کم اندازہ لگایا گیا تھا)۔ زیادہ تر متاثرین کی عمریں 30 سال سے کم تھیں۔ گلوبل برڈن آف ڈیزیز سٹڈی کے مطابق پاکستان میں ہر 1 لاکھ اموات میں 2.7 خودکشی کے واقعات ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک انتہائی محتاط اندازہ ہے، لیکن یہ بھی ایک خوفناک تعداد ہے۔

زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد خطرے میں ہیں۔ کسی کو اس وہم میں نہیں رہنا چاہیے کہ صرف غریب اور بے سہارا لوگوں کو خطرہ ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں پورے ملک میں کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کی سر عام خودکشیاں ہم سب کے لیے ایک’ویک اپ کال‘ہونی چاہئیں کہ ہمیں کس قدر سنگینی کا سامنا ہے۔

بحیثیت میڈیکل ٹیچرز ہماری پریشانیوں کا محور ایک اور حقیقت بھی ہے: پاکستان (اور دیگر کم آمدنی والے ممالک) میں کوالیفائیڈ مینٹل ہیلتھ پروفیشنلز کی قطعی اور شدید کمی۔ اعدادوشمار کو اکثر دہرایا گیا ہے تاکہ زیادہ تر لوگ جان سکیں۔ پاکستان میں ماہر نفسیات کی تعداد ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے 1,000 سے بھی کم ہے۔ ہم ماہرین کو اتنی تیزی سے تربیت نہیں دے سکتے کہ وہ اپنے لوگوں کی ضروریات پوری کر سکیں۔ جب ہم ماہرین تیار کرتے ہیں، امیر ممالک انہیں چھین لیتے ہیں، کیونکہ قلت عالمی سطح پرہے۔ ’ٹاک تھراپی‘ فراہم کرنے والے نفسیاتی ماہرین کے لیے تربیت غیر منظم ہے، جس کے نتیجے میں ایک بڑی تعداد میں ناکافی تربیت یافتہ، بغیر لائسنس کے لوگ مارکیٹ میں آ گئے ہیں۔

کرونا وبا کے بعدہزاروں غیر معیاری تربیت والے لوگ ’ذہنی صحت‘ کی خدمات آن لائن پیش کر رہے ہیں۔ یہ بہتری سے زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ہم میں سے جو لوگ ذہنی بیماری کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ خودمغلوب ہو رہے ہیں، بعض اوقات ذہنی بیماری اور بعض اوقات نوبت خود کشی تک پہنچ رہی ہے۔ تو کیا کیا جا سکتا ہے؟

آگاہی اور ایڈوکیسی پہلی اور اہم چیز ہے۔ یہ واقعی ایک خوش آئند علامت ہے کہ ذہنی صحت کے موضوع بشمول خودکشی جیسے سنگین مسائل پر اب کھل کر بات ہو رہی ہے۔ عام رائے کے بالکل برعکس خودکشی کے بارے میں بات کرنے سے اس کا خطرہ نہیں بڑھتا۔ اب جب کہ نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں ایک دوسرے سے بات کر رہے ہیں، اس لئے باتوں اور پریشانیوں کو چھپانے کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ یاد رکھیں کہ نوجوان لوگ ہمارا سب سے اہم اور قیمتی اثاثہ ہیں اور خاص طور پر موجودہ معاشی ماحول کے پیش نظر نوجوانوں کا ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔

خود کو نقصان پہنچانے والے رویے کے کسی بھی اظہار کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لیا جانا چاہیے۔ یہاں تک کہ ذہنی صحت کے پیشہ ور افراد کی کمی کے باوجود ایک یا دو ہفتے کے اندر ہنگامی مشاورت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اکثرکالج اور یونیورسٹی کیمپس ایسے ہیں جہاں اب سائٹ پر کونسلرز موجود ہیں، گو کہ ان کی مہارت مختلف ہوتی ہے، لیکن وہ کم از کم مدد کا عمل شروع کر سکتے ہیں۔ اساتذہ اور والدین کو نوجوانوں میں ذہنی صحت کے مسائل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی اور تعلیم کی ضرورت ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ان مسائل سے کیسے نپٹا جائے۔ بہت سے معاملات میں یہ جاننا اور بھی اہم ہے کہ کیا نہیں کرنا ہے۔ والدین کے اختیار کو استعمال کرنا، مسئلہ سے انکار کرنا یا زبانی یا جسمانی بدسلوکی تقریباً ہمیشہ مسئلہ کو مزید خراب کر دیتی ہے۔ سننا اور ہمدردی کرنا ایک اچھی شروعات ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ نفسیاتی ماہر کے پاس جانے کا مطلب خود دوائیوں کے نسخے لینا یا زندگی بھر کے لیے بدنامی کا لیبل نہیں ہوتا بلکہ احتیاط سے انتخاب کریں کہ آپ کس کے پاس جا رہے ہیں۔

خودکشی عمل کے ایک طویل سلسلے کا آخری مرحلہ ہے، جسے ماضی میں دیکھا جائے تو بہت سی چیزوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہم ہر کسی کو نہیں بچا سکتے لیکن خودکشی میں ضائع ہونے والی ہر جان ایک المیہ ہے اور لگ بھگ ہر خود کشی روکی جا سکتی ہے۔

بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے، ترجمہ: حارث قدیر

Ali Madeeh Hashmi
+ posts

علی مدیح ہاشمی ماہر نفسیات اور فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے معتمد ہیں۔