فاروق سلہریا
عسکری ریاست کا بحران اتنا بڑا ہے کہ فوج مارشل لاء لگانے کے قابل نہیں رہ چکی۔ فوج کی کوشش ہے کہ ہائبرڈ حکومت قائم کی جائے۔مصیبت یہ ہے کہ پہلے ناکام ہائبرڈ تجربے کے بعد حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگلا ہائبرڈ تجربہ ابھی تو لانچ ہی ہوا نہیں اور ناکام قرار دیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر شئیر کی جانے والی یہ پوسٹ کہ اگلے الیکشن کی تاریخ کسی کو معلوم نہیں مگر نتیجہ سب کو پتہ ہے، آئندہ ہائبرڈ تجربے کی پیشگی ناکامی کا مزاحیہ اظہار ہے۔
الیکشن میں ایک مہینہ باقی ہے لیکن انتخابی ماحول مفقود ہے۔ الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتیں تو دور کی بات،شائد جی ایچ کیو بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ فروری میں انتخابات ہو جائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ فوج اس وقت اقتدار پر فوجی قبضے بارے نہیں سوچ رہی لیکن اگلے دو تین سال میں حالات اس طرف جا سکتے ہیں۔ ساکھ سے محروم ہائبرڈ تجربے کرنے کی بجائے، جرنیل سوچنے لگیں گے کہ کیوں نہ ایک ایسا فوجی رجیم قائم کر دیا جائے جس کی کوئی ساکھ ہو۔ سب سے اہم بات یہ کہ عسکری ریاست کو بچانے میں سب سے بڑا جوا فوج نے ہی لگا رکھا ہے۔
ادہر،جرنیلوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس دفعہ افغان لاٹری نکلتی نظر نہیں آتی۔ یوں وہ اقتصادی بحران جو موجودہ سیاسی بحران کی بنیاد ہے، محض مارشل لا لگانے سے وقتی طور پر بھی حل نہیں ہو گا۔ایک وسط المدتی حل تو یہ ہے کہ یا تو قرضے دینے سے انکار،یا فوجی بجٹ کم کیا جائے،یا سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے کو ملنے والی اربوں ڈالر کی سبسڈی ختم کی جائے۔ فوج ان تینوں میں سے کوئی ایک قدم بھی اٹھانے پر تیار نہیں۔اس قسم کے اقدامات کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ اس کا مفاد بھی ایسے اقدامات کی اجازت نہیں دیتا۔ سو گہرے ہوتے ہوئے اقتصادی بحران،اور ممکنہ مارشل لا کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگلا فوجی آمر جنرل یحییٰ سے بھی زیادہ بدنام ہو کر ایوان ِاقتدار سے نکلے گا۔
دریں اثناء، عوام کا ایک بڑا حصہ سیاست سے اسی طرح بیگانہ ہوتا نظر آتا ہے جس طرح نوے کی دہائی میں ہوا تھا۔ ایک اہم فرق البتہٰ یہ ہے کہ ’مضافات‘ بنا دئے گئے خطوں میں زبردست مزاحمتی تحریکیں ابھری ہیں۔ جموں کشمیر، گلگت بلتستان، سابقہ فاٹا اور پورا بلوچستان۔۔۔بار بار سڑکوں پر نکلے ہیں۔ گو اکثر اوقات ریاست پسپائی اختیار کرنے پر مجبور نہیں ہوئی مگر ان خطوں میں عوامی تحریکوں نے بھی دم نہیں توڑا۔نوے کی دہائی میں ایسی تحریکیں نہیں تھیں۔ اس کے بعد وکلا تحریک چلی جس نے پی ٹی آئی کی شکل میں سیاسی تنظیم کی شکل اختیار کی۔
موقع ہے کہ بائیں بازو کے گروہ ’مضا فات‘ کی تحریکوں کے ساتھ مل کر مشترکہ پلیٹ فارم بنائیں۔ اقتصادی بحران اتنا بڑا ہے کہ لوگ زیادہ عرصہ سیاست سے بیگانہ نہیں رہ سکتے۔ غالب امکان ہے کہ اگلی بار مین اسٹریم جماعتیں عوامی مظاہروں کا پلیٹ فارم نہیں بن سکیں گی۔ مارشل لگے یا ہائبرڈ رجیم کی لاٹھی سے پاکستان کو ہانکا جائے، یہ نظام اب چل نہیں پائے گا۔
مذہبی جنونی قوتیں ایک متبادل قوت بن کر قیادت کا خلا کسی حد تک پر کر سکتی ہیں۔ جس طرح،آج مارشل لا کی بات مشکل نظر آتی ہے،اسی طرح شائد بہت سے لوگوں کو یہ لگے کہ مولوی قیادت فراہم نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی جنونی قوتوں کی طاقت اور سماجی بنیاد کا ادراک لبرل یا بائیں بازو کے حلقوں میں بھی درست طور پر نہیں پایا جاتا۔
تھوڑے رد و بدل کے ساتھ گرامشی کی بات دہرائی جا سکتی ہے: پچھلا نظام دم توڑ چکا ہے۔ نیا پیدا نہیں ہو رہا۔ سو یہ وقت ہر قسم کی سیاسی بلاوں کے لئے موافق ہے۔تحریک انصاف ایسی ہی ایک چھوٹی بلا تھی۔ مذہبی جنونی یا فوجی آمریت کسی بڑی بلا کی شکل نمودار ہو سکتے ہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔