حارث قدیر
شبیر مایار کہتے ہیں: ”گلگت بلتستان انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔حکمران گندم جیسی بنیادی سہولت تک رسائی بھی چھیننا چاہتے ہیں۔ 17روز سے احتجاجی تحریک چل رہی ہے اور سکردو میں منفی 12سے 15درجہ حرارت کی شدیدسردی میں لوگ روزانہ کی بنیاد پر دھرنا دے رہے ہیں لیکن مطالبات کی منظوری کی بجائے شیڈول فورمیں نام کے اندراج کی صورت تحفہ دیا جا رہا ہے۔ حقوق کے حصول کیلئے ہم ہر سطح تک جائیں گے۔“
شبیر مایار کا تعلق بلتستان کے ضلع کھرمنگ سے ہے۔ وہ متحرک ترقی پسند قوم پرست رہنما ہیں اور گلگت بلتستان یونائیٹڈ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے سرگرم ہیں۔ گلگت بلتستان میں جاری حالیہ تحریک کی قیادت کرنے والی عوامی ایکشن کمیٹی کا حصہ ہیں اور ضلع کھرمنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز ’جدوجہد‘ نے شبیر مایار کا ایک مختصر انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
گلگت بلتستان میں جاری حالیہ تحریک کب اور کس مقام سے شروع ہوئی؟
شبیر مایار: یہ تحریک بلتستان سے شروع ہوئی ہے اور آج اس تحریک کو17دن ہو گئے ہیں۔ مختلف مقامات پر احتجاجی دھرنے، ریلیاں اور شٹر ڈاؤن ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔سکردو میں منفی12سے15درجہ حرارت کی شدید سردی میں لوگ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں دھرنے میں شریک ہو رہے ہیں۔
اس تحریک کے بنیادی مطالبات کیا ہیں اور اس کی قیادت کون لوگ کر رہے ہیں؟
شبیر مایار: سب سے اہم مطالبہ تو گندم کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ واپس لینے کا ہے۔ مجموعی طورپر عوامی ایکشن کمیٹی نے گرینڈ جرگہ منعقد کر کے 15نکاتی چاٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ گندم کی قیمت 18سے22روپے فی کلو مقرر کی جائے اور فی کس 9کلو گرام گندم کی ہر شہری کو فراہمی یقینی بنائے جائے۔ جی بی فنانس ایکٹ کو کالعدم قرار دیاجائے۔ بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے۔ ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے اور وفاق پاکستان کے ساتھ این ایف سی طرز کا معاہدہ کیا جائے۔ تمام غیر آباد اور بنجر زمینوں کو عوامی ملکیت تسلیم کیاجائے۔ اسی طرح گلگت بلتستان آئین ساز اسمبلی کا قیام، دیامر بھاشا ڈیم میں 80فیصد رائلٹی، غیرمقامی افراد کو جاری مائننگ لیز کی منسوخی اور مقامی افراد کو لیز دینے، ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کو انڈسٹری کا درجہ دینے، میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز کے قیام، خواتین کیلئے یونیورسٹی کا قیام، قدیم شاہراہوں اور راستوں کی بحالی، شونٹر ٹنل کی جلد ازجلد تعمیر سمیت دیگرمطالبات ہمارے چاٹر آف ڈیمانڈ میں شامل ہیں۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے قیام تک گندم، مٹی کے تیل، خوردنی تیل، ہوائی سفر اور دیگر ضروریات زندگی پر سبسڈی فراہم کی جائے۔
اس وقت کہاں کہاں احتجاجی دھرنے چل رہے ہیں اور کون کون سے اضلاع میں اس تحریک کے اثرات موجود ہیں؟
شبیر مایار: مستقل دھرنا تو سکردو میں چل رہا ہے۔ روزانہ 2بجے سے 4بجے تک لوگ دھرنے میں شریک ہوتے ہیں۔ باقی تمام اضلاع میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں منعقد کی جا رہی ہیں۔ دو روز قبل استور میں مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ دیامر، کھرمنگ، غذر، ہنزہ، نگر، گلگت اور دیگر جگہوں پر احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دیئے جا رہے ہیں۔گلگت میں عوام کی شمولیت کوئی اتنی زیادہ ابھی تک نہیں ہو پائی، ہمیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں گلگت کے لوگ بھی اس تحریک میں بھرپور حصہ لیں گے۔ باقی تقریباً تمام اضلاع میں بڑی تعداد میں لوگوں نے احتجاج میں شرکت کی ہے۔
تمام اضلاع کے نمائندوں، ٹرانسپورٹروں، تاجروں، ہوٹل ایسوسی ایشن، ٹیکسی ایسوسی ایشن سمیت مختلف مکاتب فکر پر مشتمل عوامی ایکشن کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ یہی ایکشن کمیٹی اس تحریک کی قیادت کر رہی ہے اور عوام اس تحریک میں بھرپورشمولیت کر رہے ہیں، کیونکہ یہ لوگوں کے بنیادی مسائل ہیں۔ گلگت بلتستان بہت ہی پسماندہ علاقہ ہے اور دشوار گزار پہاڑوں پر روزگار، تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سردیوں میں جو چھوٹا موٹا روزگار ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اوپر سے اگر بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو اور گندم کی قیمتوں میں یکمشت اضافہ ہو جائے تو لوگوں کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچ جاتا۔
آٹے کی قیمت پہلے کتنی تھی اور اب اس میں کتنا اضافہ کیا گیا ہے؟
شبیر مایار: یہاں گلگت بلتستان میں دو طرح سے سبسڈی والی گندم دی جا رہی ہے۔ کچھ مقامات پر گندم فراہم کی جاتی ہے اور کچھ مقامات پر پسائی کی ملیں موجود ہیں، وہاں آٹا فراہم کیا جا رہا ہے۔ جون میں فی کلو گندم18روپے میں فراہم کی جا رہی تھی، جس میں اضافہ کر کے 22روپے فی کلو قیمت مقرر کی گئی۔ اسی طرح 40کلوگرام آٹے کی قیمت1016روپے مقررکی گئی۔ تاہم دسمبر میں پہلے گندم کی قیمت 22روپے سے سیدھا54روپے فی کلو گرام مقرر کی گئی۔ احتجاج شروع ہونے کے بعد54روپے سے کم کر کے 36روپے کر دی گئی ہے۔ اب یہ تو کوئی طریقہ نہیں کہ یکمشت55فیصد اضافہ کر دیا جائے۔یہ سراسر ناانصافی اور بھاری معاشی بوجھ ہے، جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ پرانی قیمتیں بحال کی جانی چاہئیں اور اگر کچھ اضافہ ناگزیر ہوا بھی تو حکومت ہمارے سے معاہدہ کرے کہ یہ اضافہ آئندہ 4یا 5سال تک کیلئے ہوگا۔ اس سے قبل مزید اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ البتہ یہ یکمشت14روپے فی کلو اضافہ کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
ابھی تک کسی نے مذاکرات بھی کئے ہیں یا نہیں؟ اگر کئے ہیں تو کس نے اور کیابات کی ہے اور اگر نہیں کئے تو کوئی امکان بھی ہے یا نہیں؟
شبیر مایار: حکومت نے تین چار مرتبہ مذاکرات تو کئے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ انتظامیہ سمیت مختلف شخصیات نے مذاکرات کئے ہیں۔ ہمارے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہم پر امن احتجاج کر رہے ہیں اور بات نہ سنی گئی تو احتجاج میں مزید شدت لانے کی کوشش کریں گے۔ بظاہر حکمرانوں کے عمل سے لگ تو نہیں رہا کہ وہ ہمارے مطالبات منظور کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہیں، لیکن ہم اپنی آواز اس وقت تک اٹھاتے رہیں گے اور تحریک اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک ہمارے مطالبات منظور نہیں ہو جاتے۔
حکمرانوں کی سنجیدگی کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مطالبات منظور کرنے اور مذاکرات کرنے کی بجائے تحریک میں شامل لوگوں کو انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت شیڈول فور میں ڈالنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔ پہلے ہی عوامی حقوق کی بات کرنے والے مجھ سمیت بے شمار سیاسی کارکنان ایسے ہیں جنہیں شیڈول فور میں ڈالا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم نقل و حرکت نہیں کر سکتے۔ روزگار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے حربے استعمال کرنے والی ریاست سے یہ امید تو نہیں لگائی جا سکتی کہ وہ عوام کو بغیر مانگے سہولیات دینگے۔ ہمیں یہ یقین ہے کہ ہمیں اپنے حقوق چھین کر ہی لینے ہونگے۔
اگر احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور ہڑتالوں کے بعد بھی مطالبات منظور نہیں ہوتے تو کمیٹی کی جانب سے اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
شبیر مایار: ابھی تو ہم نے احتجاجی مظاہرے اوردھرنے دیئے ہیں۔ کچھ مقاما ت پر شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی ہوئی ہے۔ اگلے مرحلے میں خواتین بھی اس تحریک کا حصہ بنیں گی۔ مستقل دھرنے دینے کا آپشن بھی زیر غور ہے۔ تمام اضلاع میں مستقل دھرنے بھی دیئے جا سکتے ہیں۔ آخری آپشن کے طورپر پھر مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال بھی ہے اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا آپشن بھی کھلا ہے۔ اگر مطالبات منظور نہیں ہوتے تو کسی بھی سخت لائحہ عمل کی ذمہ داری پھر حکمرانوں پر ہو گی۔ ہم پر امن انداز میں اپنی آواز پہنچانے کی بھرپورکوشش کر رہے ہیں۔ اگر نہ سنی گئی تو پھر ہم پر امن ہی رہیں گے لیکن احتجاج کا طریقہ کار اس طرح کا کر لیں گے کہ حکمرانوں کے کام کاج بھی متاثر ہونگے۔