صائمہ بتول
سرمائے کے حصول کی اندھی دوڑ نے جہاں ہر ایک پیشے کو منڈی میں لا کھڑا کیا ہے اور آڑھتیوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے، وہاں تعلیم کو کیسے محفوظ کیا جا سکتا تھا۔ سو اسے بھی بازار کی جنس بنا دیا گیا ہے۔ آج تعلیم کا مقصد طلبہ کی صلاحیتوں کو نکھارنا ان کی فکر میں وسعت پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ تعلیم منافع اور شرح منافع کے حصول کا ذریعہ ہے۔ کبھی ریاست کی ترجیحات میں ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنے شہریوں کو تعلیم مہیا کرتے ہوئے سرمایہ داری کے لیے ہنر مند مزدوروں کی کھیپ تیار کرے تاکہ انھیں استحصال کرنے میں کسی طرح کی دشواری درپیش نہ آئے۔ تاہم اب اس شعبے کو بھی آڑھتیوں کے رحم کرم پہ چھوڑ دیا گیا ہے۔
یونیسکو کے مطابق دنیا بھر میں 27 فیصد طلبہ نجی اداروں میں زیر تعلیم ہیں جبکہ پاکستان میں یہ تعداد دو گنا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں بڑی تعداد میں غیر رجسٹرد ادارے موجود ہیں۔ نجی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کے لیے ٹیوشن بھی لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ یوں بچوں کے والدین پہ دوہرا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ طبقاتی نظام میں تعلیمی اداروں کی بھی درجہ بندی ہے۔ امیر طبقے کے سکول الگ، انکی نقالی کرنے والی درمیانی پرت کے سکول الگ اور مزدور طبقے کے سکول الگ ہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے، جن کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے، ان میں بھی سہولیات کافقدان ہے۔ جو گنے چنے سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں، ان کا انفراسٹرکچر تباہ حالی کا شکار ہے۔ قدرتی آفات کی وجہ سے جو ادارے تباہ ہوئے انکی بحالی کی کوئی امید توموجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے خام خیالی ہی تصور ہو گی۔ بے شمار ایسے ادارہ جات موجود ہیں، جن میں بجلی، پانی، واش روم، لائبریری، لیبارٹریز، فرنیچر، کھیلوں کے میدان یہاں تک کے کھڑکیاں، دروازے اور چھتیں تک موجود نہیں ہیں۔ ایسے تعلیمی اداروں میں تعلیم کے معیار کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا جمعہ بازار ہے۔ ان میں مختلف درجات ہیں، جہاں آخری تجزیے میں پیسے کی مقدار ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ بکنے والی تعلیم کا معیار اور وقعت کیا ہو گی۔ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے بیشتر بچوں کے لیے تو پہلے ہی اعلیٰ تعلیم ایک خواب کی حیثیت رکھتی ہے، اب انھیں بنیادی تعلیم کے حق سے بھی محروم کیے جانے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ پاکستان میں موجود بے تحاشہ تعلیمی اداروں کے باوجود زیادہ تر بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ 2014ء میں ایک غیر سرکاری ادارے ”الف اعلان“ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے جنکی عمر سکول جانے کی تھی، مگر وہ سکول سے باہر تھے۔
”سوشل اینڈ لیونگ میژرمنٹ اسٹینڈرڈز“ نے اپنے 2019ء کے سروے میں بتایا پاکستان میں 5 سال سے لے کر 16 سال کے ایج گروپ کے 32 فیصد پاکستانی بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ 5 سے 9 سال کی عمر کے گروپ میں 5 ملین بچے سکولوں میں داخل نہیں اور 10 سے 14 سال کی عمر کے 11 اعشاریہ 4 ملین نوجوان رسمی تعلیم سے محروم ہیں۔ سندھ میں 52 فیصد غریب ترین بچے سکولوں سے محروم ہیں، جن میں 58 فیصد لڑکیاں ہیں۔ بلوچستان میں 78 فیصد بچیاں سکولوں سے باہر ہیں۔
پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں تعلیم میں بھی صنفی تفریق کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ بیشتر والدین ثقافتی دباؤ کی وجہ سے بچیوں کو سکولوں سے دور رکھتے ہیں، مگر زیادہ تر والدین معاشی مجبوری کی وجہ سے بچیوں کو تعلیم دلوانے سے محروم ہیں۔ ایسے بچوں کے والدین معاشی طور پر اتنے مجبور ہوتے ہیں کہ وہ بمشکل ایک ہی بچے کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ اس نظام میں تعلیمی ادارے طلبہ کے لیے مسائل کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ جہاں ایک طرف ان کی صلاحیتیں چھین کر انھیں ذہنی مریض بنایا جا رہا ہے اور دوسری طرف انھیں ایک قیدی کی طرح رکھا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ حقوق بحالی کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ موجود نہیں ہے۔ ضیا آمریت کے دور میں طلبہ یونین پر لگائی گئی پابندی آج تک برقرار ہے۔ طلبہ سیاست کو منصوبہ بندی کے تحت ختم کیا جا رہا ہے۔ طلبہ سے احتجاج کاحق چھیننے میں تمام تعلیمی ادارے پیش پیش ہیں۔
کئی تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں جن میں کبھی بھی طلبہ کی طرف سے کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان اداروں میں طلبہ کو مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، بلکہ وہ ادارے اپنی جابر پالیسیوں کے ذریعے طلبہ کو احتجاج کے حق سے محروم رکھتے ہیں۔
اعلی تعلیمی ادارے (یونیورسٹیاں) ایسی جگہ ہوتی ہیں، جہاں طلبا و طالبات اپنی زندگی کے اہم ترین دور سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ان میں فیصلہ سازی کی قوت میں نکھار آ رہا ہوتا ہے اور وہ ایک ایسے سٹیج سے گزرتے ہیں جو ان کی مستقبل کی راہیں متعین کرتا ہے۔ یونیورسٹیوں کو ماضی میں طلبہ کے لیے محفوظ جگہیں خیال کیا جاتا تھا۔ تاہم مگر دنیا بھر میں طلبہ و طالبات کی بہت کم تعداد ہے جو یونیورسٹیوں تک پہنچ پاتی ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 20 کروڑ نوجوان یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں، یہ تعداد 1998ء میں تقریبا 8 کروڑ 90 لاکھ تھی۔ جہاں ایک طرف یونیورسٹیوں میں داخل ہونے والے طلبہ کی تعداد میں معمولی اضافہ نظر آیا ہے، وہیں دوسری طرف نوجوانوں کی بڑی تعداد کے لیے یونیورسٹیوں کے دروازے بند ہیں۔ یو ایس سینسر بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق یکم جولائی 2018ء تک 17 سے 23 سال کی عمر کے گروپ کی آبادی 82 کروڑ 66 لاکھ 81 ہزار سے زائد تھی۔ پاکستان کی قومی تعلیمی پالیسی برائے 2017ء تا 2025ء کے مطابق ملک میں اعلی تعلیم کے لیے ایج گروپ 17 سے 23 سال تک کا ہے۔ اس ایج گروپ کو بطور پیمانہ لیا جائے توصرف 24 فیصد نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور باقیوں کے لیے اعلی تعلیم ایک خواب ہے۔ اس ایج گروپ کی چوتھی بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ پاکستان میں ہر 21 واں نوجوان یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا ہے اور 20 نوجوان اس سطح تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔
طالبات کی کثیر تعداد حصول تعلیم کے لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کرتی ہے، مگر خواتین کے لیے جیسا رجعتی رویہ سماج میں ہے، اس سے گھناؤنا کردار تعلیمی اداروں کا ہے۔ تعلیمی اداروں کو بھی سماج سے کاٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا،لیکن طالبات کے لیے یہ تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سماج کے قدامت پرست رویوں سے لڑ کر جب طالبات ان اداروں کا رخ کرتی ہیں، تو وہاں بھی انھیں سخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یونیورسٹی لیول پر طالبات کی خودکشی کا تناسب زیادہ ہے۔ 2020ء میں پاکستان کی معروف یونیورسٹی جامعہ کراچی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نادیہ اشرف نے خودکشی کی۔ طالبہ کی خودکشی کی وجہ اس کے ’PHD‘ کے سپروائزر کی بلیک میلنگ بتائی گئی۔ 2020ء میں ہی لاہور میں یونیورسٹی کی طالبہ نے سوشل سائنس ڈیپارٹمنٹ کی چھت سے چھلانگ لگا کر خود سوزی کی کوشش کی۔ 2017ء میں لاڑکانہ کے ڈینٹل کالج کی طالبہ نمرتا کماری نے ہاسٹل میں خودسوزی کی۔ 2022ء میں کراچی کے علاقے ناظم آباد میں وویمن یونیورسٹی کی طالبہ نے چھت سے کودنے کی کوشش کی۔
29 جولائی 2020ء کو بی بی سی کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ’بیشتر پاکستانی تعلیمی اداروں میں طالبات کو ان کے اساتذہ کی طرف سے جنسی طور پہ ہراساں کیا جاتا ہے۔‘ ایسے میں جو طالبات اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسگی کو منظر عام پہ لانا چاہتی ہیں یا اس کے خلاف آواز اٹھانا چاہتی ہیں، ان کو روکنے کے لیے طرح طرح کے حربے آزمائے جاتے ہیں۔ سب سے عام طریقہ ایسی طالبات کی کردار کشی کر کے ان کو ادارے سے نکالنا ہے۔ بعض اوقات ایسی طالبات کی ڈگریاں روک دی جاتی ہیں۔
یونیورسٹیاں طالبات کی خودکشیوں کو ان کے گھریلو حالات کا شاخسانہ قرار دیتی ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ گھریلو حالات سے تنگ طالبات کئی میل سفر کر کے یونیورسٹیوں کا انتخاب کیوں کریں گی۔ محکمہ پولیس کی طرف سے ایسے کیسز میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی، کیونکہ تمام تر یونیورسٹیاں ریاستی آشیر آباد سے چلتی ہیں اور حکومت سے سالانہ گرانٹ لینے کی کوششوں میں مصروف عمل رہتی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں رائج قدیم نصاب طلبہ کو جدید علوم سے روشناس کروانے کی بجائے انھیں قدامت پسندی کا درس دیتا ہے۔ نصاب میں تبدیلی، کتابوں پہ لگائے گئے کور اورقیمت میں اضافہ کی حد تک ہی رہتی ہے۔ کتابوں کے اندر درج اسباق میں کسی بھی نئے لفظ کا اضافہ نہیں کیا جاتا۔ امتحانی طریقہ کار طلبا و طالبات کے لیے کڑی آزمائش سے کم نہیں ہے، ماسٹر لیول کے طلبہ کے لیے بھی وہی امتحانی طریقہ کار ہے، جو پرائمری لیول کے طلبہ کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ ان مشکل حالات میں ڈگری کے حصول میں جو طلبہ کامیاب ہو جاتے ہیں ان کے لیے سماج میں روزگار کی ضمانت نہیں ہے۔
بقول لینن ’ہم ہر اس تعلیم کو مسترد کرتے ہیں جو سماج میں زندہ رہنا نہیں سکھاتی۔‘ سرکاری نوکری کے حصول کے لیے زمینیں جائیدایں بیچ کر لاکھوں روپے لگانے والے طالب علموں سے سرکاری نوکری کوسوں دور رہتی ہے۔
ہر سال پاکستان کی یونیورسٹیوں میں ہزاروں کی تعداد میں ڈگریاں تقسیم کی جاتی ہیں، لیکن عملی میدان میں یہ ڈگریاں کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ درجہ نہیں رکھتیں۔ تعلیمی اداروں کے اندر ہونے والے ظلم، جبر اور استحصال کے خاتمے کے خلاف منظم ہو کے لڑائی لڑنے کے سوا اب طلبہ کے پاس کوئی چارہ موجود نہیں ہے۔ حکمران طبقے اور نجی تعلیمی اداروں کے کاروباری مالکان کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کا اس کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہے کہ منظم ہوا جائے، اپنی صفوں کو مستحکم کیاجائے اور نہ صرف معیاری و مفت تعلیم بلکہ یقینی روزگار کے حصول کے لیے دیگر پسے ہوئے، استحصال زدہ طبقات کے ساتھ مل کر جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔