مارکسی تعلیم

لینن کی میراث کے 100 سال

عمران کامیانہ

(لینن کی سوویں برسی کے حوالے سے لکھا گیا یہ خصوصی مضمون انگریزی زبان میں 15 فروری 2024ء کو ’ایشین مارکسسٹ ریویو‘ اور مختلف دوست تنظیموں کی ویب سائٹوں پر شائع ہوا۔ ہم اپنے قارئین کے لئے اس کا اردو ترجمہ شائع کر رہے ہیں)

21 جنوری 1924ء کو ولادیمیر لینن کی وفات کے بعد سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ کارل مارکس کی طرح لینن کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جن پر بہتان تراشی کے معاملے میں حکمران طبقات نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نہ صرف قدامت پرست بلکہ لبرل بھی اسے ایک خونی آمر اور اقتدار کے بھوکے غاصب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ بائیں بازو کے بیشتر اصلاح پسند‘ حکمران طبقات کے یہ الزامات دہرانے کے ساتھ ساتھ لینن کو ایک ایسے بے صبرے مہم جو کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے اکتوبر 1917ء میں ریاستی اقتدار تک اپنی پارٹی کی رہنمائی کر کے انقلابِ روس کے نامیاتی عمل کو سبوتاژ کر دیا۔ ایسے میں بالشویک انقلاب کو بھی مزدوروں اور کسان سپاہیوں کی ایک عوامی (لیکن منظم) سرکشی کی بجائے ایک ’کُو‘ (اقتدار پر قبضے کی گروہی سازش) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر کبھی اکتوبر کی سرکشی میں بڑے پیمانے کی عوامی حمایت اور عمل دخل کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے تو اسے ایک ’’قبل از وقت‘‘ (پری میچور) اقدام قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لینن کی پالیسیوں نے ہی آخر کار سٹالنزم کا راستہ ہموار کیا۔

لیکن دوسری طرف پھر سٹالنسٹ ہیں جو چیزوں کو ایک دوسری انتہا پر لے جاتے ہیں۔ وہ لینن کی تصویر کشی ایک ولی یا پیغمبر کے طور پر کرتے ہیں۔ تمام تر علم رکھنے والی ایک ایسی عالمگیر اور آفاقی شخصیت جس کے دماغ میں انقلاب کا سارا نقشہ و منصوبہ پہلے سے موجود تھا اور جو ہر قسم کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے پاک تھی۔ تاریخ کے اس بیہودہ ورژن کے مطابق لینن کی قیادت میں بالشویک پارٹی بنا کسی رکاوٹ، پسپائی یا تذبذب کے پیش قدمی کرتے ہوئے اقتدار پر براجمان ہو گئی۔ المیہ یہ ہے کہ حقیقی سیاسی کام اور حکمت عملی کے میدان میں یہی لوگ ہر اس چیز کے داعی اور علمبردار نظر آتے ہیں جو لینن کے نظریات سے متصادم اور بالشویک انقلاب کی میراث سے یکسر غداری پر مبنی ہوتی ہے۔

یہ مارکس وادیوں کی ذمہ داری ہے کہ جھوٹ، ہٹ دھرمی اور اندھے اعتقاد وغیرہ پر مبنی ایسے تمام نقطہ ہائے نظر کے خلاف لینن کا دفاع کیا جائے۔ جس کے لئے پھر ضروری ہے کہ لینن کو سمجھا جائے۔

آخری تجزئیے میں ہر انسان کی طرح لینن بھی اپنے وقت اور حالات کی پیداوار تھا۔ لیکن یہ کوئی عام یا معمولی پیداوار نہیں تھی۔ لینن ان چند غیرمعمولی لوگوں میں سے ایک تھا جو تاریخ کے معروضی عمل کو نہ صرف سمجھنے اور پرکھنے کے قابل ہوتے ہیں بلکہ اس لاشعوری تاریخی عمل کو ایک شعوری اور منطقی اظہار عطا کر کے تاریخ کا دھارا ہی موڑ دیتے ہیں۔ اس تناظر میں ٹراٹسکی کی طرح لینن نے بھی ان ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر مارکسزم کی ترویج کی جو مارکس اور اینگلز نے استوار کی تھیں۔ اس مقصد کے لئے اسے سب سے پہلے بورژوازی کے نظریاتی حملوں اور اپنے وقت کی سوشل ڈیموکریٹک اصلاح پسندی کی وارداتوں کے خلاف مارکسزم کی میراث کا دفاع کرنا پڑا (اگرچہ اصلاح پسندی کے دلائل آج بھی کم و بیش وہی ہیں جو لینن کے وقتوں میں تھے)۔ تمام عمر (بالخصوص تیز تبدیلیوں کے وقتوں میں) لینن کو مارکسزم پر دائیں اور بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی طرف سے پھینکی گئی بے شمار دھول جھاڑنی پڑی اور اس کی نظریاتی اساس کو واضح اور اجاگر کرنا پڑا۔ چنانچہ اس نے مارکسزم کو ایک عقیدہ، بنا بنایا فارمولا یا اس میں سے طبقاتی جدوجہد کا بنیادی عنصر نکال کے اسے ایک طرح کا تصوف یا ایک بے جان و بے ضرر نظریہ بنادینے کے رجحانات کے خلاف جدوجہد مسلسل جاری رکھی۔

مارکسزم کی ترقی و ترویج میں لینن کا حصہ سیاسی معاشیات سے لے کے فلسفے، تاریخ سے لے کے پارٹی کی تعمیر کے فن اور قومی سوال پر اس کے انتہائی زرخیز کام سے لے کے روس جیسے پسماندہ ملک میں سوشلسٹ انقلاب کو درپیش مسائل کے میدانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ ان امور میں لینن کا عمومی تجزیہ، طریقہ کار، تناظر اور اخذ کردہ نتائج آج بھی معقول اور درست ہیں۔

انقلابی پارٹی کی ضرورت

آئیے سب سے پہلے پارٹی کے سوال پر غور کرتے ہیں۔ پرولتاریہ کی تاریخی نجات کی جدوجہد میں لینن کا انتہائی اہم کام یہ ہے کہ اس نے مارکس اور اینگلز سے اسباق لیتے ہوئے ’ہراول‘ یا انقلابی پارٹی کی سیاسی سائنس کی بنیاد رکھی۔ لینن کے نزدیک معاشرے کی یکسر تبدیلی کے عمل میں انقلابی پارٹی‘ پرولتاریہ کے بنیادی ترین سیاسی اوزار کا درجہ رکھتی ہے۔ جس کے بغیر سوشلسٹ انقلاب کا خیال ممکن نہیں۔

اپنے مضمون ’کیا کیا جائے؟‘ (1902ء) اور بعد ازاں بیشتر دوسری تحریروں اور تقریروں میں لینن نے انقلابی پارٹی کا تصور واضح کیا اور ایسی انتہائی منظم و یکجا تنظیم کی ضرورت پر زور دیا جو ’پروفیشنل‘ انقلابیوں پر مشتمل ہو (ایسے انقلابی جن کی زندگی سوشلسٹ انقلاب کے نصب العین کے لئے وقف ہو)۔ ایک فتح مند سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں پرولتاریہ کو منظم و متحرک کرنے کے لئے لینن نے مضبوط تنظیمی ڈھانچے، نظریاتی تسلسل و یگانگت اور مرکزی قیادت کی اہمیت پر ہمیشہ زور دیا۔ اس مقصدکے لئے اس نے ’جمہوری مرکزیت‘ کو پارٹی کے اندر بحث، فیصلہ سازی اور عمل کے ایک متحرک سیاسی طریقہ کار کے طور پر وضع کیا۔ لینن نے جمہوری مرکزیت کی تعریف کچھ یوں کی: تنقید اور بحث مباحثے کی مکمل آزادی، لیکن فیصلہ ہو جانے کے بعد عمل میں مکمل یکجائی اور اتحاد۔

یہ بالکل واضح ہونا چاہئے کہ تمام تر داخلی تضادات، کمزوریوں اور تذبذب کے باوجود ایسی ہی انقلابی تنظیم کے بلبوتے پر بالشویک پارٹی اکتوبر 1917ء میں انقلابِ روس کو ایک منطقی انجام تک پہنچانے کے قابل ہو سکی۔ آج بھی تنظیمی ڈھانچوں اور حکمت عملی وغیرہ میں حالات و واقعات کے مطابق جزوی فرق یا تبدیلیوں کے باوجود پرولتاری انقلاب کا بنیادی آلہ وہ انقلابی پارٹی ہی ہے جس کا تصور اور بنیادی طریقہ کار لینن نے وضع کیا تھا۔

خیال پرستی کے خلاف جدلیاتی مادیت کا دفاع

اسی طرح لینن کو خیال پرستی کے مختلف رجحانات، جو آج اپنا اظہار زیادہ تر پوسٹ ماڈرنزم کے بھونڈے اور رجعتی نظرئیے کی شکل میں کرتے ہیں، کے خلاف لڑائی لڑنا پڑی۔ مارکس کی طرح لینن کے نزدیک بھی فلسفہ محض نظریاتی بحث یا مذاکرے کی سرگرمی کی بجائے طبقاتی جدوجہد کے کلیدی ہتھیار کا درجہ رکھتا تھا۔ انسانی علم کو ذاتی تجربے یا مشاہدے تک محدود کر دینے والی اپنے وقت کی موضوعی خیال پرستی (Empirio-Criticism) کے خلاف جدلیاتی مادیت کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے لینن نے مادی دنیا کے آزادانہ وجود کو نہ صرف واضح کیا بلکہ معروضی حقیقت کو ایک مسلسل ارتقا پذیر اور مربوط مظہر کے طور پر سمجھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

لینن کا استدلال تھا کہ معروضی دنیا کے وجود یا اس کی اہمیت کا انکار کر کے خیال پرستی انسانوں میں ایسے شبہات کو جنم دیتی ہے جو محنت کش طبقے کی انقلابی صلاحیت کو کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ مزید برآں محض انسانی حسیات کے ذریعے سے مادی حقیقت کا مکمل ادراک حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ایک کامل اور سائنسی تناظر کی تشکیل کے لئے چیزوں سے ربط، تجرید اور تھیوری کے طریقہ کار بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ یوں بنیادی طور پر لینن نے یہ نکتہ اجاگر کیا کہ مادی دنیا نہ صرف انسانوں سے آزادانہ وجود کی حامل ہے، نہ صرف اسے سمجھا جا سکتا ہے بلکہ تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ رجعتی نظریات کے خلاف مارکسزم کی فلسفیانہ اساس کے دفاع اور ارتقا کے حوالے سے ’مادیت اور تجربی تنقید‘(1909ء) لینن کی بھرپور عزم و ہمت کا مظہر ہے اور انقلابی مادی سوچ کی روایت میں انتہائی اہم تحریر کا درجہ رکھتی ہے۔

سامراجیت کا تجزیہ

سامراجیت کی مارکسی تھیوری کو آگے بڑھانے میں بھی لینن کی خدمات گراں قدر ہیں۔ اپنے وقت کی عالمی سرمایہ داری کی سیاسی معاشیات کا تجزیہ کرتے ہوئے لینن نے واضح کیا کہ سرمایہ داری مارکس کے وقتوں سے ارتقا پذیر ہو کے اپنے بلند ترین مرحلے پر پہنچ چکی تھی۔ یوں مارکس نے ایک ایسے وقت میں سرمایہ داری کا تنقیدی جائزہ لیا جب وہ بڑی حد تک قومی حدود میں قید تھی اور منڈی کی مقابلے بازی کسی حد تک رائج تھی۔ جبکہ لینن نے سرمایہ داری کے اجارہ دارانہ مرحلے کا تجزیہ پیش کیا اور سائنسی بنیادوں پر سامراجیت کی تھیوری تخلیق کی (1916ء)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مارکس کا تجزیہ متروک ہو چکا تھا (یا ہو چکا ہے) بلکہ لینن کا کام مارکس اور اینگلز کی جانب سے سرمایہ داری کے سیاسی و معاشی تجزئیے کو ہی آگے بڑھاتا ہے اور ایک طرح سے ان کے کام کی تکمیل کرتا ہے۔

تاہم یہ آج کے مارکس وادیوں کا فریضہ بنتا ہے کہ سامراجیت پر لینن کے کام کو مزید وسعت دیں۔ کیونکہ بالخصوص دوسری عالمی جنگ کے بعد سے عالمی سرمایہ داری میں کئی اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔ نتیجتاً سامراج کے استحصالی طریقہ کار بھی تبدیل ہوئے ہیں (یا یوں کہہ لیں کہ نئے طریقوں کا اضافہ ہوا ہے)۔ بہرحال لینن کی جانب سے سامراجیت کے تجزئیے کے بنیادی نکات سو سال بعد بھی مستند ہیں۔

قومی سوال کی طرف انقلابی حکمت عملی

آج انسانیت کی اکثریت نوآبادیاتی یا سابق نوآبادیاتی خطوں میں آباد ہے جہاں تاخیر زدہ سرمایہ داری کے تحت ان سماجوں پر غیرہموار اور مشترک طرز ارتقا کے گہرے نقوش ثبت ہیں۔ اس طرز ارتقا سے جنم لینے والے دوسرے کئی طرح کے مخصوص مسائل کے ساتھ ساتھ ان ممالک (جن میں سے بیشتر کثیرالقومی معاشرے ہیں) میں قومی سوال بھی بڑی حد تک حل طلب ہے۔

یہاں ایک بار پھر ایک معقول انقلابی حکمت عملی اور پروگرام کی تشکیل میں قومی مسئلے پر لینن کا زرخیز کام بہت اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ ان ممالک میں کوئی بھی عبوری پروگرام جو خاطر خواہ طور سے قومی سوال کو ایڈریس کرنے سے قاصر ہو‘ نہ صرف ادھورا شمار ہو گا بلکہ بیشتر صورتوں میں بالکل غیرمتعلقہ ہو کے رہ جائے گا۔

لینن کے وقتوں کی مارکسی تحریک میں بھی ایسے عناصر موجود تھے جو قومی سوال کی اہمیت یا کئی صورتوں میں اس کے وجود سے ہی انکاری تھے۔ لیکن ایک دوسری انتہا بھی موجود تھی جہاں طبقاتی جدوجہد کو قومی نجات کی جدوجہد کے تابع کرنے کا رجحان موجود تھا۔ لینن کو ان دونوں رجحانات کے خلاف طویل لڑائی لڑنا پڑی۔ اس نے محکوم قوموں کے حق خودارادیت کو پارٹی پروگرام میں شامل کرنے کے لئے بھرپور جدوجہد کی۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ مارکس وادی بالعموم قومی بنیادوں پر علیحدگی اور چھوٹی قومی ریاستوں کی تشکیل کی وکالت نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لا کے ضم کر دینا چاہتے ہیں۔ مزید برآں لینن نے ہمیشہ قومی سوال کو معاشرے کی سوشلسٹ تبدیلی کی وسیع تر جدوجہد کے ماتحت رکھا۔ قومی مسئلے کی طرف بھرپور سمجھ بوجھ پر مبنی اس لیننسٹ پوزیشن نے زار شاہی کے روس (جسے لینن ’قوموں کا جیل خانہ‘ کہتا تھا) کی محکوم قومیتوں کا اعتماد جیتنے اور بالشویکوں کی فتح کو یقینی بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا اور ٹراٹسکی کے الفاظ میں قومی محرومی کے غم و غصے کو بالشویزم کے دھارے میں شامل کر دیا۔ مزید برآں ٹراٹسکی نے لینن کی قومی پالیسی کو بالکل بجا طور پر انسانیت کے ابدی خزانوں میں شمار کیا۔

فرقہ پرستی کے خلاف جدوجہد

انقلابی حکمت عملی کی میدان میں لینن کا ایک اور انمول کام یہ ہے کہ اس نے بوقت ضرور عوامی و اصلاح پسندتنظیموں اور اداروں (چاہے وہ ٹریڈیونینیں ہوں، سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں ہوں یا بورژوا انتخابات) میں مداخلت کی ضرورت پر نہ صرف زور دیا بلکہ اس سلسلے میں باقاعدہ اصول اور طریقے وضع کیے۔ یہاں ایک بار پھر اسے بائیں بازو کے انتہا پسندانہ رجحانات کے خلاف لڑنا پڑا۔ جنہیں اس نے ’طفلانہ بیماری کا شکار‘ (1920ء) قرار دیا۔ لینن کے نزدیک اصلاح پسند تنظیموں یا سیاسی عوامل میں کام کا بنیادی مقصد نہ صرف وہاں موجود محنت کشوں کو مزدور دوست اصلاحات کی جدوجہد کے ذریعے انقلابی پروگرام پر جتینا بلکہ اسی عمل کے دوران اصلاح پسند قیادتوں اور اصلاح پسندی کی حدود و قیود کو بھی بے نقاب کرنا تھا۔

یوں لینن نے کمال سیاسی و نظریاتی ذہانت اور مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصلاحات اور اصلاح پسندی کے درمیان فرق کو ہمیشہ خود بھی روا رکھا اور محنت کش عوام کے سامنے واضح بھی کیا۔ اصلاح پسندتنظیموں میں کام کی پالیسی کو بعد ازاں مختلف ٹراٹسکائٹ تنظیموں نے اپنے اپنے حالات کے مطابق ’انٹرازم‘ کی حکمت عملی میں ڈھالا اور کئی صورتوں میں خاطرخواہ نتائج بھی حاصل کیے۔ لیکن پھر اس طریقہ کار کے بے موقع و محل یا موقع پرستانہ استعمال کی مثالیں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔

بہرحال جب تک سرمایہ داری موجود ہے‘ اصلاح پسند تنظیمیں نہ صرف موجود رہیں گی بلکہ کئی صورتوں میں بڑا عوامی اثر و رسوخ بھی حاصل کرنے کی طرف جائیں گی۔ چنانچہ بائیں بازو کی فرقہ پرستی کے خلاف لینن کی جدوجہد اور اصلاح پسندی کے سیاسی عوامل میں موجود عوام کیساتھ جڑنے اور انہیں انقلابی پروگرام پر جیتنے کے حوالے سے اس کے وضع کردہ طریقہ کار یا اصول بھی اہمیت کے حامل رہیں گے۔

سوشلسٹ انقلاب کے بعد کی عبوری معاشیات

آخر میں ہم لینن کی میراث کے اس پہلو کی طرف آتے ہیں جو زیادہ تر پوشیدہ اور نامعلوم ہی رہا ہے۔ بدقسمتی سے نہ صرف سٹالنزم بلکہ ٹراٹسکی کے نام لیوا رجحانات نے بھی اس بحث کو دبایا ہے یا کم از کم احتراز برتنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں ہماری مراد عبوری معاشیات پر لینن کے کام سے ہے جو اس نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں شروع کیا اور جو بالآخر مزدور ریاست میں ریاستی سرمایہ داری کے لیننسٹ تصور اور بعد ازاں ’نیواکنامک پالیسی‘ (این ای پی) پر منتج ہوا۔ یہ پالیسی، جس میں انقلابِ روس کی انتہائی پسماندگی، تباہی اور تنہائی کے حالات میں منڈی کے عناصر کو کچھ رعایات دی گئیں، ایک بار پھر واضح کرتی ہے کہ لینن جہاں مارکسزم کی انقلابی اساس کے دفاع میں نظریاتی طور پر بالکل غیر مصالحت پسندانہ، ثابت قدم اور اٹل رویوں کا مظاہرہ کرتا تھا وہاں طریقہ کار اور حکمت عملی کے معاملے میں وہ اتنا ہی لچکدار تھا۔ ضرورت پڑنے پر وہ مصالحت (جسے پسپائی کہنا زیادہ بہتر ہو گا) سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔ لیکن اس کی مصالحتیں نظریاتی نہیں بلکہ تذویراتی ہوا کرتی تھیں اور وقتی پسپائی کے ذریعے وہ اپنے اگلے حملے کے لئے مناسب وقت کی تلاش میں رہتا تھا۔

’نیواکنامک پالیسی‘ بھی ایسی ہی تذویراتی مصالحت اور ضروری لیکن وقتی پسپائی تھی جس میں جنگی کمیونزم اور مکمل نیشنلائزیشن کی پالیسی کو ترک کیا گیا۔ لینن اس حکمت عملی کے ذریعے ترقی یافتہ یورپ (بالخصوص جرمنی) میں کامیاب انقلاب تک وقت حاصل کرنا اور روس کے انقلاب کو بچائے رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن لینن کی نیو اکنامک پالیسی آج بھی بالخصوص پسماندہ خطوں کے انقلابات کے لئے بہت اہم اسباق کی حامل ہے (اگرچہ چینی سٹالنزم اسے جواز بنا کے سرمایہ داری کے راستے پر بہت آگے نکل گیا )۔ جیسا کہ لینن اور ٹراٹسکی نے بار بار وضاحت کی کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب تک سوشلسٹ انقلاب پسماندہ ممالک میں مقید اور تنہائی کا شکار رہے گا ‘ اسے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سرمائے کے ساتھ بھی مصالحتیں کرنی پڑیں گی۔ جو مخصوص حالات میں انقلاب کی مکمل تباہی یا شکست کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔

مزید برآں جتنا پسماندہ کوئی ملک ہو گا‘ اتنا ہی تکلیف دہ، پیچیدہ، طویل اور غیریقینی سرمایہ داری سے اس کا عبور ہو گا۔ ان حالات میں مزدور ریاست میں افسرشاہانہ بگاڑ کا خطرہ بھی ہمیشہ موجود رہے گا۔ جب تک کہ سرمایہ داری کو اس کے سامراجی مراکز میں اکھاڑ پھینکا نہ جائے اور ترقی یافتہ ممالک کا پرولتاریہ پسماندہ خطوں میں موجود اپنے طبقاتی بہن بھائیوں کی مدد کو نہ آ جائے۔ یہ ایک بنیادی وجہ ہے کہ لینن تمام عمر ایک ناقابل مصالحت انٹرنیشنلسٹ رہا اور ہمیشہ انقلاب روس کو عالمی سوشلزم کی وسیع تر جنگ کے محض ایک محاذ یا لڑائی کے طور پر دیکھتا رہا۔

اپریل تھیسس

لیننزم انقلاب کا کوئی بنا بنایا نسخہ یا فارمولا نہیں تھا (آج بھی ایسے کسی نسخے کا وجود نہیں ہے)۔ اس بات کا ایک اور ثبوت فروری 1917ء کے بعد انقلابِ روس کے کردار سے متعلق لینن کے تصور کی تبدیلی ہے۔ جب اس نے حالات و واقعات کا مشاہدہ کرتے ہوئے ’اپریل تھیسس‘ کے ذریعے ’پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت‘ کے اپنے پرانے خیال کو عملاً ٹراٹسکی کے انقلابِ مسلسل کے حق میں ترک کر دیا۔ تاہم یہ بات اہم ہے جب وہ روس میں انقلاب کے اول الذکر خیال کا حامل تھا تب بھی اس نے طبقاتی مصالحت، اصلاح پسندی اور تدریجیت (سرمایہ داری کی سوشلزم میں بتدریج تبدیلی) کے رجحانات کے خلاف ہمیشہ پوری قوت سے لڑائی لڑی۔ اُس وقت بھی وہ روس میں زارشاہی کے خاتمے اور جمہوری انقلاب کے ذریعے ترقی یافتہ یورپ کے سوشلسٹ انقلاب کو تحریک دینا چاہتا ہے۔

لیکن پھر ٹراٹسکی خود بھی پارٹی کے کردار اور داخلی طریقہ کار کے حوالے سے کئی سال تک ہچکچاہٹ کا شکار رہا اور آخر کار 1917ء میں لینن کیساتھ ہم آہنگ ہوا۔ یوں بالشویک انقلاب کے ان دونوں قائدین نے ایک دوسرے کی تکمیل کی۔ یہ سچ ہے کہ روس میں انقلاب کے بغیر آج بہت کم لوگ ہی لینن اور ٹراٹسکی کے ناموں سے واقف ہوتے۔ لیکن پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لینن اور ٹراٹسکی کے بغیر روس کا انقلاب فتحیاب نہ ہو پاتا۔

یہ بھی ایک دلچسپ تاریخی حقیقت ہے کہ فروری 1917ء میں پہلے انقلاب کے ذریعے زارشاہی کے خاتمے کے حالات میں روس واپس آنے کے بعد لینن کو خود اپنی پارٹی کو ایک انتہائی بے رحم اور تلخ داخلی جدوجہد کے ذریعے اقتدار پر قبضے کے لئے تیار کرنا پڑا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سٹالن سمیت بالشویک پارٹی کی بیشتر قیادت اس وقت تک کے واقعات سے بالکل مطمئن تھی اور زارشاہی کے خاتمے اور ایک بورژوا جمہوری حکومت کے قیام کو ہی انقلاب کا منطقی انجام سمجھ رہی تھی۔ ان حالات میں صورتحال کی نزاکت کو واضح کرنے کے لئے غصے سے تپے ہوئے لینن کو پارٹی اجلاسوں میں کیڈروں کو ڈانٹنے کی نہج تک جانا پڑا۔ اسی تناظر میں اس نے اپنے پرانے نوٹس کی مدد سے ’جولائی کے دنوں‘ کے بعد کے انتہائی نازک حالات میں ’ریاست اور انقلاب‘(1917ء) تحریر کی۔ یاد رہے کہ لینن ان دنوں کیرنسکی کی عبوری حکومت کے عتاب سے بچنے کے لئے زیر زمین تھا اور زیادہ امکانات یہی تھے کہ پکڑے جانے پر فوری موت اس کا مقدر بنتی۔

انقلابی لٹریچر کے اس شاہکار کو تخلیق کرتے وقت ایک بار پھر اسے ریاست کی مارکسی تھیوری پر پھینکی گئی اصلاح پسندانہ دھول کو جھاڑنا اور یہ نکتہ واضح کرنا پڑا کہ کسی بھی صورت میں ایک بورژوا ریاست کو ٹھیک کر کے پرولتاریہ کے سیاسی اقتدار کا اوزار نہیں بنایا جا سکتا۔ بلکہ پرانی ریاست کو مکمل پاش پاش کر کے اس کی جگہ ایک مختلف نوعیت کا سیاسی ڈھانچہ کھڑا کرنا ہو گا۔ یہ سوشلسٹ ریاست بھی اگرچہ ردِ انقلابی رجحانات کے لئے جبر کا آلہ ہی ہو گی لیکن سوشلزم کی سماجی و معاشی ترقی کے ساتھ خود کو سماج میں ضم کرتی جائے گی اور ایک کمیونسٹ مرحلے میں (کم از کم جبر کے آلے کے طور پر) بالکل تحلیل ہو جائے گی۔

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ لینن اور ٹراٹسکی کے اصرار اور قیادت کے تحت بالشویک اگر اکتوبر میں اقتدار پر قبضہ نہ کرتے تو چند ہفتوں میں جرمن فوجیں پیٹروگراڈ میں ہوتیں۔ لیکن بالفرض ایسا نہ ہوتا تو بھی زارشاہی سے کہیں زیادہ رجعتی، جابرانہ اور وحشیانہ حکومت کا طوق روس کا مقدر ہوتا (کورنیلوف کو ذہن میں رکھیں!) اور یہ ردِ انقلابی حکومت اپنی کاروائی کا آغاز لاکھوں انقلابی مزدوروں اور کسانوں کے قتل عام سے کرتی۔ لبرلوں اور اصلاح پسندوں کی خوش فہمیوں کے برعکس مغربی یورپ جیسی صحت مند بورژوا جمہوریت کسی صورت روس کا مستقبل نہیں تھی۔

لینن زندہ ہے…

لینن کی آخری لڑائی انقلاب کی زوال پذیری اور ابھرتے ہوئے سٹالنزم کے خلاف تھی۔ جس کے خطرات سے وہ بخوبی واقف تھا۔ اپنے آخری سالوں میں اس نے نومولود مزدور ریاست میں افسرشاہی کے ابھار کی تنبیہ اور مزاحمت مسلسل جاری رکھی۔

لیکن کچھ سال پہلے لگنے والی گولیوں کے زخموں سے اس کی قبل از وقت موت ایک تاریخی المیہ تھا۔ لینن کے بعد ٹراٹسکی کی قیادت میں لیفٹ اپوزیشن نے سٹالنزم کے خلاف بے لوث اور دلیرانہ جدوجہد کی لیکن بالآخر کچل دئیے گئے۔ لینن کی مالا جپنے والا سٹالنزم‘ لینن کی حقیقی پارٹی کو قبر میں اتار کر ہی فتحیاب ہوا۔ 1930ء کے اواخر تک ہراول بالشویکوں کی وسیع اکثریت کو سٹالن نے قتل کروا دیا تھا۔ یوں بورژوا بکواسیات کے برعکس سٹالنزم‘ لیننزم کا ناگزیر نتیجہ نہیں بلکہ اس کی یکسر نفی پر مبنی نظریہ تھا۔ آخری تجزئیے میں یہ ایک انتہائی مفلس اور تکنیکی و ثقافتی طور پر پسماندہ ملک میں انقلاب کی تنہائی کی پیداوار تھا۔

بہرحال 1980ء کے اواخر میں سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں اپنے ناگزیر انہدام کے بعد سٹالنزم بڑی حد تک اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ لیکن لینن کے نظریات سو سال بعد بھی متعلقہ اور زندہ ہیں۔ اس عظیم انقلابی کی سیاسی و نظریات میراث آج بھی روشنی کا وہ مینار ہے جو اس فرسودہ اور متروک نظامِ سرمایہ کے خاتمے کی تاریخی جدوجہد میں پوری دنیاکے انقلابیوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔

Imran Kamyana
Website | + posts

عمران کامیانہ گزشتہ کئی سالوں سے انقلابی سیاست اور صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاسی معاشیات اور تاریخ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔