(نوٹ: طبقاتی جدوجہد کی 41ویں کانگریس کے سلسلہ میں عالمی صورتحال سے متعلق دستاویز’سوشلزم یا بربریت: عالمی صورتحال، پیش منظر اور لائحہ عمل‘ شائع کی گئی ہے۔ مذکورہ دستاویز کا ایک حصہ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)
2022ء کے آخر اور 2023ء میں دائیں اور انتہائی دائیں بازو نے خاص طور پر یورپ میں نئی انتخابی فتوحات حاصل کی ہیں۔ سویڈن میں ماڈریٹ پارٹی (دائیں بازو) اور سویڈن ڈیموکریٹس (انتہائی دائیں بازو) نے سوشل ڈیموکریسی کے بعد دوسرے اور تیسرے نمبر پر آ کر حکومتی اتحاد بنایا۔ فن لینڈ میں نیشنل کولیشن (دائیں بازو) نے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جس کی حمایت پارٹی آف فنز (انتہائی دائیں بازو) نے کی اور دو دیگر قوتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ نیدرلینڈز (ہالینڈ) میں پارٹی فار فریڈم (انتہائی دائیں بازو) نے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور تین دیگر دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ سپین میں پی پی (دائیں بازو) نے علاقائی انتخابات میں پیش قدمی کی اور عام انتخابات میں ووکس (انتہائی دائیں بازو)کو ہرا کرمیابی حاصل کی۔ اگرچہ اسے حکومت بنانے کے لیے درکار اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ یونان میں نیو ڈیموکریسی (دائیں بازو) نے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور تین انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے 13 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت ’جرمنی کے لیے متبادل‘کے نام سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ترکی میں اے کے پی (بنیاد پرست دایاں بازو) اور آمرانہ رجحانات رکھنے والا اردگان پھر سے صدر منتخب ہوا ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں ایس وی پی (دائیں بازو) نے کامیابی حاصل کی۔ اٹلی میں انتہائی دائیں بازوکی ’برادرز آف اٹلی‘ اور ہنگری میں ’فیڈز پارٹی‘ حکومت میں ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ صدارت میں لوٹنے کی دوڑ میں شامل ہے۔
مصر کے صدارتی انتخابات میں حزب مستقبل وطن پارٹی (دائیں بازو)کا سابق فوجی جنرل السیسی دوسری بار صدر منتخب ہو چکا ہے۔ لاطینی امریکہ میں ارجنٹینا میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ہاویئر مِلے صدر منتخب ہو چکا ہے۔ وہ ایک لیبرٹیرین یا انتشاری سرمایہ دارانہ تجربہ کرنا چاہتا ہے اور ماکری کی قیادت میں موجود دائیں بازو کے ساتھ مل کر کٹوتیوں اور آمریت کی سخت پالیسیاں نافذ کرنے کے چکر میں ہے۔ ایکواڈور کے صدارتی انتخابات میں کمزور اے ڈی این اتحاد کے نوبوا نے کامیابی حاصل کی۔ کولمبیا، جہاں ہسٹورک پیکٹ (سینٹر لیفٹ) سے تعلق رکھنے والا پیٹرو برسراقتدار ہے، کے علاقائی انتخابات میں دائیں بازو کی مختلف جماعتیں جیت گئی ہیں۔
اسی طرح ہندوستان میں نیم فسطائی مودی اور بی جے پی، جو ایک طرف نیولبرل یلغار کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف پورے ہندوستانی معاشرے کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے کے درپے ہیں، تیسری بار برسراقتدار آنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں عمران خان اور تحریک انصاف کا رجعتی ابھار بھی پاپولسٹ دائیں بازو کا ہی ایک مظہر ہے۔
ان پیش رفتوں کی بنیادی وجہ کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے: یہ دراصل خود ساختہ ”ترقی پسند“ حکومتوں کی ناکامی ہے جو اس ”ترقی پسندی“ کی آڑ میں سخت سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا اطلاق کرتی ہیں۔ جس سے عوامی تحریک میں مایوسی، سماجی عدم اطمینان اور نظریاتی کنفیوژن پیدا ہوتی ہے۔ سرمایہ داری دشمن انقلابی بایاں بازو ہی سرمایہ داری کی پروپیگنڈا مشینری کی جانب سے سوشلزم مخالف مہم کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ لیکن جب عوام کو ایسا کوئی انقلابی
آپشن میسر نہیں آتا تو ان کا غصہ سیاسی و انتخابی میدان میں دائیں اور انتہائی دائیں بازو کے ذریعے اپنا اظہار کرتا ہے۔
پچھلی صدی کے فسطائی (فاشسٹ) رجحانات کے برعکس فی الوقت موجود انتہائی دایاں بازو محنت کش طبقے کے خلاف خانہ جنگی کے طریقوں کی بجائے بورژوا جمہوری حکومت کے ڈھانچے کے اندر کام کرتا نظر آتا ہے (اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس بارے میں نیچے کی سطور میں مزید بحث موجود ہے)۔ لیکن اصلاح پسندی اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے تاکہ اپنی طبقاتی مفاہمت اور لبرل بورژوا حکومتوں کے لیے اپنی سیاسی حمایت کو ایک کمتر برائی کے طور پر جائز قرار دے سکے۔ اس پالیسی اورفاشزم کے خلاف ضروری اتحاد بنانے میں فرق کرنا ضروری ہے۔
انتہائی دائیں بازو کی پیش قدمی سماجوں کو ریڈیکل بنیادوں پر تقسیم کرتی ہے۔ یہ عوام کی زیادہ باشعور پرتوں میں موجودہ نظام کے استرداد، نئے سیاسی امکانات کی تشکیل اور تحریک کی تنظیم اور تحرک میں اضافے کا باعث بھی بن رہی ہے۔ ابھی جنوری 2024ء کے آخری دنوں میں ہی ہم نے اے ایف ڈی کے نوفسطائیوں کے اقتدار میں آنے کے امکان کے خلاف جرمنی میں پندرہ لاکھ لوگوں کا ایک اجتماع دیکھا ہے۔ اسی تناظر میں ارجنٹینا میں ایک عام ہڑتال کی گئی تھی اور اس سے بھی بڑھ کر 24 جنوری کو 10 لاکھ محنت کش اور دوسرے عام لوگ ہاویئر مِلے کی نئی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے خلاف متحرک ہوئے ہیں۔ اٹلی میں بھی اسی طرح کے مظاہرے ہوئے ہیں۔ یونان اور کئی دیگر ممالک میں بھی فسطائی رجحانات کے خلاف جدوجہد دیکھی جا سکتی ہے۔
الٹرا رائٹ یا انتہائی دایاں بازو ایک خطرہ ہے جسے سنجیدہ لینا چاہیے اور سیاسی اور ثقافتی طور پر اس کے خلاف لڑناچاہیے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں آمریت، جبر اور کٹوتیوں کی پالیسیوں کے نفاذ کی خاطر فوجی مداخلت اور تشدد تک کے رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتحال کے خلاف ہمیں احتجاجوں میں پیش پیش ہونا چاہیے۔ اپنے عمومی پروگرام اور انقلابی پالیسی کے جزو کے طور پر جمہوری حقوق اور آزادیوں کے دفاع پر زور دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں عوام میں ایجی ٹیشن کرنی چاہیے اور صبر کے ساتھ یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ صرف محنت کشوں کی حکومتیں اور سوشلزم ہی ایک بین الاقوامی نصب العین کے طور پر اکثریتی آبادی کے لیے سماجی بہبود، آزادی اور حقیقی جمہوریت کی ضمانت دے سکتے ہیں۔
آئی ایس ایل کے پروگرام کے جزو کے طور پر ہمیں انتہائی دائیں بازو کے خلاف سرگرمیوں، تقریبات اور بین الاقوامی فورمز کو فروغ دینا چاہیے اور ان میں شرکت کرنی چاہیے۔ اور ایسا ہمیں انقلابیوں کی تنظیم نو کی جستجو اور اس جانب ہمارے مستقل رجحان کے وسیع تر تناظر میں کرنا ہے۔