فاروق سلہریا
1990ء کے انتخابات ہوئے تو میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلے کی وجہ سے لاہور آ چکا تھا۔ اتفاق سے میرا ہاسٹل اس حلقے میں تھا جہاں نواز شریف کا مقابلہ کرنے کے لئے تین جماعتی اتحاد (پیپلز پارٹی، تحریک استقلال اور طاہر القادری کی عوامی پارٹی) نے اصغر خان کو مقابلے پر اتارا تھا (جی ہاں! طاہر القادری)۔
مجھے یاد ہے،ایک شام کھانا کھانے لکشمی چوک پہنچے تو وہاں اصغر خان مرحوم کا جلسہ ہو رہا تھا۔ اس جلسے سے شاہ احمد نوروانی نے بھی خطاب کیا جبکہ حبیب جالب نے نظمیں پڑھیں۔ مولانا نورانی بہت شستہ اردو میں بات کرتے تھے۔ اصغر خان بہت جوشیلے مقرر نہیں تھے مگر سلجھی ہوئی گفتگو کر رہے تھے۔ جلسے میں شائد پانچ ہزار سے زیادہ لوگ تھے۔ سب مقررین کو غورسے سنا گیا۔ سب سے زیادہ دلچسپی سے حبیب جالب کو سنا گیا۔ اصغر خان کے ساتھ سوبائی نشست پر پیپلز پارٹی کے امیدوار ایک سابق سی ایس پی افسر تھے۔ نام یاد نہیں۔ان کے والد بھٹو دور میں پنجاب کے وزیر تعلیم تھے۔ میں نے انہین بھی بعض جلسوں میں سنا۔ دونوں ہی بہت شستہ گفتگو کرتے۔
1988ء کا الیکشن میں نے سرگودہا میں دیکھا۔ الیکشن سے قبل بے نظیر بھٹو بھی سرگودہا آئیں۔ ان کے جلسے میں ہی نہیں، پیپلز پارٹی کے ہر انتخابی جلسے میں انقلابی شاعری پڑھی جاتی تھی۔ ’تم کتنے بھٹو مارو گے،ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘ شائد ہر جلسے میں پڑھی جاتی۔
اس انتخابی مہم کے دوران پیپلز پارٹی کے حامی رکشے والے، ٹریکٹر ٹرالی والے، بس اور ٹرک والے۔۔۔خود پیپلز پارٹی کے جلسے منعقد کرنے والے۔۔۔ایک ترانہ اسپیکر پر بجاتے: ساتھیو مجاہدو جاگ اٹھو! جاگ اٹھا ہے سارا وطن۔
شائد یہ ترانہ ستر کی دہائی میں فوجی مقاصد کے لئے تیار کیا گیا تھا (یوٹیوب پر موجود ویڈیو سے تو یہی لگتا ہے)۔مجھے اس ترانے کی تاریخ معلوم نہیں۔ ہاں البتہٰ جب 1988ء کے انتخابی پس منظر میں یہ ترانہ بجتا تو اس کا مطلب تھا ضیا آمریت کی باقیات (حمید گل، جماعت اسلامی، نواز شریف) کے خلاف پورا ملک اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
ترانے میں ایک مذہبی ٹچ بھی موجود ہے لیکن اس میں طبقات کی بات کی گئی ہے۔ مظلوم کے ظالم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے، سامراج سے ٹکرانے کی بات بھی موجود ہے۔ترانے سننے والے کو لگتا کہ جس ظالم کی بات کی جا رہی ہے وہ ضیا باقیات ہیں، ساراج سے ٹکرانے کا مطلب بھٹو کا قاتل سمجھا جانے والا امریکہ لیا جاتا۔
جمالیاتی حوالے سے دیکھیں تو ترانے کی موسیقی، کمپوزیشن اور بول۔۔۔سب بہت جاندار ہیں۔ خیبر شکن، سایہ فگن ایسی اصطلاحات خوبصورتی سے استعمال کی گئی ہیں جن کا شائد سوشل میڈیا جنریشن کی اکثریت کو مطلب بھی نہ آتا ہو۔
جب یہ ترانہ بجاتے ہوئے کوئی موٹر سڑک سے گزرتی تو سائیکل سوار، پیدل چلنے والے، دیگر گاڑیوں اور ریڑھیوں والے اپنی انگلیوں سے V کا فاتحانہ نشان بناتے۔ سیاسی فضا انقلابی اور باغی بخار میں مبتلا تھی۔ لگتا تھا ضیا آمریت کے تابوت میں آخری کیل سی ون تھرٹی پھٹنے سے نہیں، دسمبر میں ہونے والے الیکشن کے دوران ٹھکے گا۔
صرف انتخابی مہم کے دوران ہی نہیں، ہم ان دنوں سنتے تھے کہ جلسے جلوس میں شاعری اور انقلابی موسیقی پاکستان (اس سے پہلے غیر منقسم ہندوستان)کے سیاسی کلچر کا حصہ تھا۔ استاد دامن سے لے کر حبیب جالب تک، کتنی ہی عظیم شاعر جلسوں میں شاعری پیش کرتے۔ پھر یہ شاعری ملک کے کونے کونے میں پھیل جاتی۔ سیاست میں ادب اور ادب میں سیاست غالباََ بائیں بازو کی مداخلت کا بھی ایک نتیجہ تھا۔
پھر یوں ہوا کہ سیاست سے ترقی پسند نظریات غائب ہوتے چلے گئے۔ زوال پزیر اورگراوٹ کا شکار سیاست کا ابتدائی اظہار اگر نواز شریف اورآصف علی زرداری تھے تو اس اس گراوٹ کو اتھاہ گہرائیوں میں پہنچانے کا سہرا عمران خان کے سر باندھا جا سکتا ہے۔
جوں جوں سیاست زوال پزیر ہوئی،توں توں سیاسی ثقافت بھی تباہ ہوتی گئی اور ہوتی جا رہی ہے۔ دلیل کی جگہ اگر گالی لے چکی ہے تو ساتھیو مجاہدو کی جگہ قیدی نمبر 804 جیسی فحاشی نے لے لی ہے۔
1990ء میں جب بے نظیر کی حکومت برطرف ہوئی تو اردو کے مایہ ناز شاعر محسن نقوی نے نظم لکھی ’یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور‘۔ یہ نظم بچے بچے کو ازبر تھی۔ عمران خان کی حکومت بر طرف ہوئی تو ٹاپ ٹوئٹر ٹرینڈ تھا ’رنڈی‘۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔