فاروق سلہریا
میں نے اپنے عزیز دوست عدنان فاروق سے روزنامہ ’جدوجہد‘کی تشہیر کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت)کی مدد سے ایک تصویر بنانے کی درخواست کی۔
عدنان فاروق آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کا استعمال بخوبی جانتے ہیں اور مجھے اس کی افادیت بارے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ مندرجہ ذیل تصویر مارکس، لینن اور ٹراٹسکی کو لیپ ٹاپ پر جدوجہد کا مطالعہ کرتے ہوئے دکھایا جائے۔
اے آئی نے مارکس کا امیج تو بنا دیا مگر لینن بارے جواب دے دیا کہ اس طرح کا امیج بنانا گائڈ لائنز کے خلاف ہے۔
راقم ایک عرصے سے کہتا آ رہا ہے کہ آزادی اظہار کا تعلق ٹیکنالوجی سے نہیں،جدوجہدسے ہے۔
ہر ٹیکنالوجی کی ایک سیاسی معیشت،پولیٹیکل اکانومی،ہوتی ہے۔
اگر ٹیکنالوجی ہمیں سنسر شپ سے نجات دلا سکتی تو سنسر شپ 400 سال پہلے ختم ہو چکا ہوتا۔۔۔۔جب پرنٹنگ پریس بنا تھا۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔