اداریہ جدوجہد
پاکستان کا صوبہ بلوچستان ایک بار پر دنیا بھر میں شہ سرخیوں میں ہے۔ تاہم پاکستان کے میڈیا میں بلوچستان کا ذکر بھی تقریباً غائب ہے۔ 28جولائی کو گوادر کے مقام پر ’بلوچ یکجہتی کمیٹی‘ کی جانب سے ’بلوچ راجی مُچی‘(بلوچ قومی اجتماع) کے انعقاد کے اعلان کے بعد ریاست نے ہر حربہ اپنایا کہ اس قومی اجتماع کو سبوتاژ کیا جائے۔ بلوچستان سے گوادر کی جانب جانے والی تمام سڑکوں کو بند کر دیا گیا۔سکیورٹی فورسز کے ساتھ مختلف مقامات پر اجتماع میں شرکت کیلئے جانے والے قافلوں کا آمنا سامنا ہوا۔ مبینہ فائرنگ اور تشدد کے باعث 3ہلاکتوں اور درجنوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔اس کے علاوہ متعدد رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ کچھ رہنماؤں کو گرفتاری کے بعد رہا بھی کیا گیا ہے، تاہم بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنما جیند بلوچ سمیت متعدد رہنما تاحال لاپتہ ہیں۔ حکومت نے 27جولائی کو بلوچستان کے مختلف علاقوں اور بالخصوص گوادر میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس مکمل طور پر بند کر دی تھی، جو تادم تحریر بند ہے۔
حکومت کی جانب سے تمام رکاوٹوں کے باوجود گوادر کے پدی زِر علاقے میں کثیر تعداد میں مرد و خواتین بلوچوں نے دھرنا دے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ جن جن علاقوں میں قافلوں کو روکا گیا، وہاں بھی دھرنے دیئے گئے۔ گزشتہ روز بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی، اور کوئٹہ سمیت مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے۔
یہ تمام صورتحال ایک پر امن جلسہ منعقد کرنے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ 6روز سے بلوچستان میں نظام زندگی عملی طور پر درہم برہم ہے۔ بلوچ عوام کو اجتماع اور اظہار رائے جیسے بنیادی آئینی حقوق سے بھی محروم کیا گیا ہے۔ دوسری طرف یہی صورتحال خیبرپختونخوا کی بھی ہے۔ جہاں بنوں میں امن مارچ کے شرکاء کو بھی ریاست کے اسی نوعیت کے رویے کا سامنا کرنا پڑا، جس کا سامنا بلوچ عوام کو ہے۔
پاکستان میں جوں جوں معاشی اور سیاسی بحران بڑھتا جا رہا ہے، ریاستی جبرمیں بھی اسی طور اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ایک طرف طبقاتی جبر عروج پر ہے۔ بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ڈال کر سامراجی قرضوں کی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب ہر طرح کے اختلاف کو دبانے کی پالیسی کو اپناتے ہوئے بدترین قومی جبر کیا جا رہا ہے۔
ریاست کا بلوچ عوام کے ساتھ سلوک ان کے لیے سیاسی جدوجہد کے راستوں کو مسدود کرتا جا رہا ہے۔پر امن سیاسی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹیں تشدد کو ہوا دیتی ہیں اور جو سلوک بلوچ مظاہرین کے ساتھ روا رکھا گیا ہے وہ ناگزیر طور پر بلوچ نوجوانوں میں پہلے سے ہتھیار اٹھانے کے رجحان میں اضافہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس وقت بلوچ عوام محض جینے کا حق مانگ رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اپنے وسائل پر اختیار مانگ رہے ہیں۔ تاہم ان کی رائے کو دبانے اور مطالبات منظور کرنے کی بجائے جبر کی راہ اختیار کرنے کا عمل بھیانک نتائج کا موجب بن سکتا ہے۔ پاکستانی ریاست زوال پذیری کے عمل میں مزید خونخوارہوتی جا رہی ہے۔ سیاسی مسائل کو سکیورٹی کے نقطہ نظر سے دیکھنے اور ان کا فوجی حل نکالنے کی کوششیں حالات کو مزید سنگین بناتی جا رہی ہیں۔
ایک طرف جہاں ریاست کا جبر اور استبداد بڑھتا جا رہا ہے، وہیں بلوچستان سے پختونخوا اور جموں کشمیر و گلگت بلتستان تک عوامی مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ قومی محرومی کے خلاف ابھرنے والی ان تحریکوں کا اتحاد اور محنت کشوں کی وسیع پرتوں کی حمایت اس خطے میں ایک نئے سماج کی بنیادیں ڈالنے میں اہم کردار کر سکتی ہے۔