2024 میں ادب میں نوبل انعام حاصل کرنے والی مصنفہ ہان کانگ نے اپنے بیٹے کے ساتھ جنوبی کوریا میں واقعے اپنی گھر میں رات کا کھانا ختم کیا ہی تھا کہ انھیں فون پر ایک کال موصول ہوئی۔ یہ کال نوبل انعام کی نوید لیے تھی۔ جس کے ذریعے انھیں نوبل انعام کی خوش خبری کے ساتھ یہ بھی بتایا گیاکہ وہ جنوبی کوریا میں پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ اعزاز مل رہا ہے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جنوبی کوریا کے تمام لکھاریوں کی تحاریر نے مجھے اس قدر متاثر کیا ہے کہ میں اس مقام تک پہنچ سکی ہوں۔ فون پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ کس طرح لکھنے والوں کی اجتماعی کوششوں سے انھیں حوصلہ ملا۔ ان کی تمام کوششیں اور حوصلہ افزائی ان کی ترغیب بنتی رہی۔ ہان کانگ نے اپنے بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول ”دی ویجیٹیریئن“پر اپنے تحریری عمل کے بارے میں بھی بات کی۔
نوبل انعام کی خوشخبری سننے کے دوران انھوں نے اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کچھ یوں کیا:
ہان کانگ: ہیلو؟
جینی رائیڈن: ہیلو، کیا میں ہان کانگ سے مخاطب ہوں؟
ہان کانگ: جی ہاں، آپ مجھ ہی سے مخاطب ہیں۔
جینی رائیڈن: ہیلو، میرا نام جینی رائیڈن ہے۔ میں نوبل پرائز اکادمی سے بات کر رہی ہوں۔
ہان کانگ: جی۔ آپ سے بات کر کے خوشی محسوس کر رہی ہوں۔
جینی رائیڈن: آپ سے بات کر کے میں بھی شاداں محسوس کر رہی ہوں۔ تاہم، سب سے پہلے میں آپ کو مبارک باد دینا چاہتی ہوں۔
ہان کانگ: شکریہ۔ بہت بہت شکریہ۔
جینی رائیڈن:یہ نشاط انگیز خبر پا کر آپ اس وقت کیسا محسوس کر رہی ہیں؟
ہان کانگ: میں بہت حیران ہوں اور بالکل ہوں۔ خود کو پر وقار پا رہی ہوں۔
جینی رائیڈن: آپ کو انعام کے متعلق کیسے معلوم ہوا؟
ہان کانگ: کسی نے مجھے فون کیا اور اس بارے میں خبر دی جسے سنتے ہی میں دنگ رہ گئی۔ میں نے ابھی اپنے بیٹے کے ساتھ رات کا کھانا ختم کیا تھا کہ آپ کی کال موصول ہو گئی۔ جنوبی کوریا میں ابھی رات کے 8بجے ہیں۔ البتہ یہ ایک بہت ہی سکون آگیں اور سرور پرور شام ہے۔ میں واقعی متحیر ہوں۔
جینی رائیڈن: کیا آپ سیؤل میں واقعے اپنے گھر میں ہیں؟
ہان کانگ: جی ہاں، میں سیؤل میں موجود اپنے گھر میں ہوں۔
جینی رائیڈن: آج آپ نے کیا کیا؟
ہان کانگ: آج؟ میں نے آج کوئی خاص کام نہیں کیا، کتاب کا تھوڑا سا مطالعہ کیا اور چہل قدمی کی۔ یہ میرے لیے ایک بہت آرام دہ دن تھا۔
جینی رائیڈن: تو آپ اپنے بیٹے کے ساتھ ہیں۔ اس خبرِ تحیر پر آپ کے بیٹے کا کیا ردعمل تھا؟
ہان کانگ: میرا بیٹا بھی یہ خبر سنتے ہی ہکابکا رہ گیا تھا، لیکن ہمارے پاس اس بارے میں زیادہ بات کرنے کا وقت نہیں تھا۔ ہم مستعجب تھے، اور بس مستعجب ہی تھے۔
جینی رائیڈن: میں اندازہ لگا سکتی ہوں۔ آپ کے لیے ادب میں نوبل انعام حاصل کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
ہان کانگ: جی، بلاشبہ یہ میرے لیے باعثِ عزت ہے اور میں واقعتا انعام کی قدر کرتی ہوں۔
جینی رائیڈن: آپ جنوبی کوریائی ادب میں نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔ اس بارے میں آپ کے اندر کیسے احساسات جاگزیں ہو رہے ہیں؟
ہان کانگ: جی ہاں۔ میں کتابوں کے سنگ پروان چڑھی ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، اپنے ایامِ طفلی میں، میں نے کوریائی اور ترجمہ شدہ کتابوں کا بڑی رغبت سے مطالعہ کیا، بلکہ کتابوں کی بادہ غٹک گئی۔ تو میں کہہ سکتی ہوں کہ میں کوریائی ادب کے ساتھ بڑی ہوئی ہوں، اس کے سائے میں پلی ہوں، جسے میں بہت قریب محسوس کرتی ہوں۔ تو میں امید کرتی ہوں کہ یہ خبر کوریائی ادب کے قارئین اور میرے دوستوں، لکھاریوں کے لیے اچھی ہو گی۔
جینی رائیڈن: آپ نے کہا کہ آپ کا ادبی پس منظر ہے۔ آپ کے لیے کون سے لکھاری سب سے زیادہ متاثر کر دینے والے رہے ہیں؟
ہان کانگ: میرے لیے بچپن سے ہی تمام کوریائی لکھاری ایک اجتماعی حیثیت رکھتے ہیں کیوں کہ وہ زندگی میں معنی تلاش کرتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ گم ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی وہ پُرعزم ہوتے ہیں۔ ان کی تمام کوششیں اور حوصلہ افزائی مجھے ترغیب دلاتی رہی ہے، لکھنے پر آمادہ کرتی رہی ہے۔ میرے لیے کسی ایک نام کا انتخاب کرنا قدرے جاں گسل امر ہے۔
جینی رائیڈن: میں نے پڑھا ہے کہ سویڈش مصنفہ آسٹرڈ لِنڈگرین کی شخصیت نے آپ پر خاصا اثر ڈالا ہے اور آپ نے یہ اثر قبول بھی کیا ہے؟
ہان کانگ: جی ہاں۔ جب میں بچی تھی تو مجھے ان کی کتاب ’لائین ہارٹ برادرز‘ بہت پسند تھی۔ بے شک مجھے وہ کتاب بہت مرغوب تھی، لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ واحد لکھاری ہیں جنہوں نے بچپن میں مجھے متاثر کیا ہے۔ جب میں نے کتاب ’لائین ہارٹ برادرز‘پڑھی تو میں اسے اپنی انسانیت یا زندگی اور موت کے بارے میں سوالات سے جوڑ سکی تھی۔
جینی رائیڈن: اگر کوئی آپ کی تخلیقات کا مطالعہ شروع کر رہا ہو تو آپ اسے کہاں سے شروع کرنے کی تجویز دیں گی؟
ہان کانگ: میری کتابوں میں سے؟ میرا خیال ہے کہ ہر لکھاری کو اپنی تازہ ترین کتاب پسند ہوتی ہے۔ تو میری تازہ ترین کتاب ’وی ڈو ناٹ پارٹ‘ہے یا اسے ’آئی ڈو ناٹ بڈ فیئرویل‘یا ’امپاسبل گڈبائیز‘کہا جاتا ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ یہ کتاب ایک نقطہئ آغاز ہو سکتی ہے۔ اور ’ہیومن ایکٹس‘براہِ راست اس کتاب ’وی ڈو ناٹ پارٹ‘سے جڑی ہوئی ہے۔ پھر ’دی وائٹ بک‘جو میرے لیے بہت ذاتی ہے کیونکہ یہ کافی حد تک سوانحی ہے، اور پھر’دی ویجیٹیریئن‘ ہے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ آغاز ’وی ڈو ناٹ پارٹ‘سے ہو سکتا ہے۔
جینی رائیڈن: بین الاقوامی سطح پر، شاید ’دی ویجیٹیریئن‘سب سے زیادہ معروف ہے۔ آپ کے لیے اس خاص ناول کا کیا مطلب ہے؟
ہان کانگ: میں نے اسے تین سال کے عرصے میں تحریر کیا ہے اور وہ تین سال میرے لیے کسی وجہ سے مشکل سال تھے۔ تو میرا خیال ہے کہ میں اس ناول کی کرداروں کی تصویریں، ان لوگوں کی تصویریں جو اس ناول کے منظر کو گھیرے ہوئے ہیں، اور درختوں اور دھوپ کی شبہیں تلاش کرنے میں جدوجہد کر رہی تھی۔ یہ سب کچھ ان تین سالوں میں میرے لیے بہت واضح اور معنی خیز تھا۔
جینی رائیڈن: میں آپ کو تھوڑی دیر میں جانے دوں گی۔ کیا آپ کے پاس اس نوبل انعام کا جشن منانے کاکوئی منصوبہ ہے،مراد آپ اس جشن کو کس انداز میں منائیں گی؟
ہان کانگ: اس فون کال کے بعد میں چائے پینا چاہوں گی، کیونکہ میں شراب نہیں پیتی۔ بلکہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ چائے پینے روانہ ہونے والی ہوں، اور میں آج رات اسے خاموشی ہی سے مناؤں گی۔
جینی رائیڈن: بہت اچھا۔ جی ہاں۔ ایک بار پھر بہت بہت مبارک ہو۔ بہت شکریہ۔
ہان کانگ: تسلیمات۔ آپ کا بھی شکریہ۔
جینی رائیڈن: ٹھیک ہے۔ خدا حافظ۔
ہان کانگ: اپنا خیال رکھیں۔ خدا حافظ۔
(نوٹ:یہ انٹرویو نوبل پرائز کی ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے جسے اردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔)