خبریں/تبصرے

ڈان کے مدیر ظفر عباس کیلئے آزادیِ صحافت کے بین الاقوامی ایوارڈ کا اعلان!

قیصرعباس

صحافیوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی معروف عالمی تنظیم ”سی پی جے“ (CPJ) یعنی کمیٹی فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس کی جانب سے پاکستانی صحافی ظفر عباس کو ان کی پیشہ وارانہ خدمات کے اعتراف میں آزادی صحافت کا”Gwen Ifill Press Freedom Award“ دیا جارہاہے۔

تنظیم کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے چھ صحافیوں کو 2019ء کے عالمی پریس فریڈم ایوارڈ 21 نومبر کو نیویارک میں ایک تقریب کے دوران دیے جائیں گے۔ یہ ایوارڈ پاکستان کے علاوہ برازیل، تنزانیہ، نکاراگوااور انڈیا کے ان صحافیوں کو بھی دیے جارہے ہیں جنہوں نے اپنے فرائض بیرونی دباؤ اور تشد د کے باوجود خوش اسلوبی اور بے خوفی سے سر انجام دیے۔

ظفرعباس پاکستان میں سب سے بڑے انگریزی اخبار ”ڈان“ کے مدیر ہیں اور انہوں نے ہمیشہ اپنی ادارت کے دوران اخبار پر پابندیوں کامقابلہ کرتے ہوئے اپنے پیشے کا وقار قائم رکھا ہے۔ گزشتہ سال مئی میں سابق وزیرآعظم کا انٹرویو شائع کرنے پر ان کے اخبار کی ترسیل کو روکنے کی کوشش کی گئی۔

2016ء میں بھی اس وقت کی حکومت اور سرکاری اداروں کے تعلقات کی ایک خبر پر”ڈان“ کی ترسیل روکی گئی اور انہیں رپورٹر کا نام ظاہر کرنے کے لیے دباؤ اور تفشیش کا نشانہ بنایا گیا۔ متحدہ قومی موومنٹ سے متعلق ایک خبر پر ان کے گھر پر حملے کے بعد انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا جس کے بعد انہیں اور ان کے بھائی کو زخمی حالت میں ہسپتال داخل کیا گیا۔ ان واقعات کے علاوہ انہیں ایک مذہبی جماعت کے کارکنوں کی جانب سے اسلام آباد میں ان کے دفتر کو زیر آتش اور انہیں ذدو کوب کیاگیا جب وہ بی بی سی نیوزکے لئے کام کررہے تھے۔

انہوں نے سی پی جے کو ملک میں آزادیِ اظہار پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ”اب تو سیاست اور سنگین تصادم کی رپورٹنگ بھی خطرناک ہوگئی ہے۔“ گزشتہ سال سی پی جے پاکستان پرذرائع ابلاغ پر پابندیوں پر ایک رپورٹ بھی شائع کرچکی ہے۔

نکاراگواکے دو صحافیوں لوسیاپینڈایوباؤ اورمیگوآل مورا کو بھی اس ایوارڈ سے نوازا گیا ہے جنہیں دسمبر 2018ء میں ملک میں سیاسی افراتفری پر رپورٹنگ کے الزام میں قید کردیاگیااور بعد میں رہا کردیاگیا تھا۔ یہ اعزاز بھارت کی صحافی نیہاڈکشت بھی حاصل کررہی ہیں جو سرکاری ناانصافیوں، ماورائے عدالت قتل اور غریب لوگوں کا ادویات بنانے والی کمپنیوں کے ہاتھوں غیر قانونی ٹیسٹ پر رپورٹنگ کرچکی ہیں۔ تنزانیہ کے میکسینسی میلو میوبائیزی بھی یہ ایوارڈ حاصل کررہے ہیں جو ویب سائٹ پر اپنے ادارے ”جامی فورم“ کے ذریعے انصاف، شفافیت اور سماجی مسائل پر تبصرہ کرتے ہیں۔ انہیں 2016ء میں اپنے قارئین کے نام افشا نہ کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا اور ان پر مقدما ت چلائے گئے۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔