فاروق طارق
روندی اے یاراں نوں، ناں لے لے کے بھراواں دا۔
پنجابی کی یہ مشہور کہاوت عمران خان پر مکمل صادق آتی ہے۔ وہ سرمایہ داروں کے لئے بڑے متفکر ہیں اور نام دیہاڑی دار مزدوروں کا لیتے ہیں کہ ان کا گزارا کیسے ہو گا؟ حالانکہ فکر تو انہیں اس بات کی کھائے جا رہی ہے کہ سرمایہ دار طبقات کا کیا بنے گا جن کی خدمت کرنے اور جن کے طبقاتی مفادات کا تحفظ کرنے وہ اقتدار میں آئے تھے۔
عمران خان نے 14 اپریل کو ملک بھر میں لاک ڈاؤن کو دو ہفتوں کی توسیع دینے کا اعلان بڑی ہچکچاہٹ کے ساتھ کیا اور اسے اب جزوی لاک ڈاؤن کا نام دیا گیا ہے۔ پنجاب میں سرکاری دفاتر کھلیں گے اور صنعت کا ایک بڑا حصہ بھی کھولنے کا اعلان کیا گیاہے۔ عمران خان کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ کسی طریقے سے بزنس چل پڑیں، چاہے اس کے لئے لوگوں کی صحت سے ہی کیوں نہ کھیلنا پڑے۔
کرونا وائرس عمران خان کے دور اقتدار میں ان کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے، سرکاری اپوزیشن تو عمران خان کے لئے تر نوالہ ہی ثابت ہوئی مگر کرونا وائرس نے عمران خان کی قیادت کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ اس نے ثابت کیا کہ وہ کسی بڑے بحران سے نپٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
وہ لیڈر کے طور پر نہیں، ایک کٹھ پتلی کے طور پر سامنے ناچتے نظر آئے ہیں۔ ایک دن بڑے علامانہ انداز میں لاک ڈاؤن کی مکمل مخالفت ٹی وی پر کرتے نظر آتے ہیں کہ اس کی ضرورت نہیں، صرف بوڑھے مرتے ہیں، 100 میں سے ایک یا ڈیڑھ انسان فوت ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اگلے ہی روز پورے ملک میں ان کی اپنی پارٹی کی دو صوبائی حکومتیں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیتی ہیں۔
وہ جو ہزار مصیبتوں کے ساتھ عمران خان کو طاقت میں لائے، وہ ہی اب بھی حقیقی اقتدار کے مالک اور فیصلہ سازی میں فوقیت رکھتے ہیں اور لاک ڈاؤن کا فیصلہ کر کے انہوں نے عوام کو ایک بڑی ممکنہ مہلک وبا سے کسی حد تک بچا لیا۔
کرونا وائرس پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو لے بیٹھے گا۔ ابھی سے تمام علامات نظر آ رہی ہیں کہ پاکستانی معیشت ایک بڑی کساد بازاری سے دوچار ہو گی۔ صنعتی ترقی کا پہیہ کافی آہستہ چلے گا بلکہ اس بات کے امکانات ہیں کہ یہ الٹا چلے گا۔ برآمدات میں شدید کمی ہو گی اور درآمدات پر انحصار بڑھ جائے گا۔
پاکستانی معیشت دنیا کی معیشت سے الگ تھلگ نہیں، جڑی ہوئی ہے۔ اس معاشی کساد بازاری کا پاکستان سمیت دنیا بھر میں آنے کے امکانات میں زبردست اضافہ ہو رہاہے۔ یورپین ممالک تو ابھی سے اعلان کر رہے ہیں کہ وہ کساد بازری میں داخل ہو چکے ہیں۔ بعد از کرونا دور دنیا بھر کے سرمایہ دار طبقات کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن کر روزانہ اِن کی چیخیں نکلوا رہاہے۔ سٹاک ایکسچینج ابھی سے ہی تاریخی گراوٹ کا شکار ہیں۔ بے روزگاری امریکہ سمیت تمام بڑے صنعتی ممالک میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔ سرمایہ دار ریاستیں اپنے چھپے اور کھلے خزانے سرمایہ دار کمپنیوں کو بچانے کے لئے کھولے بیٹھی ہیں۔ لوٹ کا بازار گرم ہے۔ سرمایہ داروں کے سوشلزم کا نام لیا جا رہاہے، مگرغیر یقینیت اتنی ہے کہ کچھ بھی کام کرتا نظر نہیں آ رہا۔
پاکستان جن عالمی مالیاتی اداروں یا جس سی پیک کے سہارے اپنے سرمایہ داری نظام کو پھلتا پھولتا دیکھ رہا تھا، وہ تو خود اس بحران سے نکلنے کے لئے بے قرار ہیں۔ وہ اب اپنی مدد آپ نہیں کر سکتے اِن کی مدد کیا کریں گے۔ آئی ایم ایف نے اب تھک ہار کر 13 اپریل کو کچھ ملکوں کو قرضہ ادا کرنے میں ریلیف دیا ہے کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے وہ اپنا قرضہ فوری ادا نہیں کر سکتے۔ پاکستان ایسے 25 ملکوں کی فہرست میں شامل نہیں۔
آئی ایم ایف نے عمران خان کی ریلیف بارے بار بار اپیلوں کے باوجود پاکستان کو قرضے میں ریلیف نہیں دیاحالانکہ اس حکومت نے آئی ایم ایف کے پیاروں حفیظ شیخ اور رضا باقر کو مشیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک جیسے اہم عہدوں پر فائز بھی کیا ہوا ہے۔
عمران خان اب ایک ایسا بدقسمت حکمران بن کر ابھر رہاہے جسے اقتدار دلانے کے لئے ہزار جتن کئے گئے مگر کرونا نے اس کو اور اسکے سرپرستوں کو بے بس کر دیا ہے۔ عمران خان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کرے۔ روزانہ اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ ان کی تمام حکمت عملیاں اور بیانئے اس کرونا نے تہس نہس کر دئیے ہیں۔ لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ کرپشن کا بیانیہ کب تک چلتا۔ اب تو وہ میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار کے اس بیانیہ پر چل رہے ہیں کہ ”پیسہ انویسٹ کرو، آپ سے پوچھا نہیں جائے گا“۔ اب عمران خان منتوں پر اتر آئے ہیں۔ الٹی ہو گئی ہیں اس کی سب تدبیریں۔
جب مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کو ڈیڑھ سال قبل لایا گیا تو پورا منصوبہ تھا کہ کس طرح لوگوں کی جیبوں سے پیسہ نکلوایا جائے، بجٹ خسارہ کم کیا جائے اور قرضہ جات واپس کئے جائیں۔ بڑے جوش وخروش سے بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا گیا۔ برآمدات بڑھانے کے بہانے روپے کی قیمت کم کی گئی، تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے منصوبے بنائے گئے، عوام پرنئے ٹیکسوں کی بھرمار کی گئی، ترقیاتی بجٹ روک دئیے گئے، قومی بچت سکیم میں پیسہ لانے کے لئے شرح سود 14 فیصد سے بھی زیادہ کر دی گئی اور نجکاری تیزی سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن سب بے سود۔
نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی تاریخ کی تیز ترین مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔ پھر کرونا آ گیا۔ اب لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔
حکومت کو ایک کروڑ سے زیادہ کو 12,000 روپے نقد فی خاندان دینا پڑ گیا۔ صنعت کاروں کو پانج فیصد پر قرضے دینے کا وعدہ ہے۔ سرمایہ داروں کو تین سو ارب روپے سے زیادہ سرکاری امداد دینے کا وعدہ ہے۔ لگتا ہے پاکستانی حکمران طبقات تاریخ کے شدید ترین معاشی بحران کے سامنے بے یار و مددگار کھڑے ہیں۔ ان کی آپس کی لڑائیاں تیز ہو رہی ہیں۔
جب بھی کوئی حکومت یا پارٹی غیر مقبول ہوتی ہے تو اندرونی تضادات نئی نئی شکلیں اختیار کرتے ہیں، پرانے یارانے تبدیل ہوتے ہیں اور قریبی بندوں کو عہدوں سے فارغ کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ پارٹی کو ”بچانے“ کے لئے کیا جاتا ہے۔ مگر یہ اندرونی لڑائیاں تو غیر مقبولیت کا باعث نہیں ہوتیں، پالیسیاں ہوتی ہیں جو آپ کو غیر مقبول کرتی ہیں۔ عمران خان بھی اب ایسے ہی حالات سے دوچار ہیں۔ جہانگیر ترین کو فارغ کرنے سے عمران خان اب ایک ایسے لیڈر کے طور پر ابھر رہے ہیں جو اقتدار کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔
لگتا ہے عمران خان کو کرونا لے ڈوبے گا۔ وہ پانچ سال پورے کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ شدید معاشی بحران شدید آمرانہ اقدامات کو اقتدار کی بنیاد بنا سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہ حکمت عملی کہ پیچھے رہ کر اقتدار سویلین کے حوالے رکھا جائے اور کلیدی فیصلے خود کئے جائیں، تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ براہ ِراست فوجی اقتدار کو بھی اب خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسا ہونے سے پہلے اقتدار کی رسہ کشی کئی نئی شکلیں اختیار کر سکتی ہے۔
اس سب میں ایک بات واضح ہے کہ آنے والا بعد ازکرونا دور محنت کش طبقات کے لئے پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مشکلات کا ہے۔ بے روزگاری میں شدید اضافہ ہو گا اور مہنگائی عروج پر جائے گی۔ حکمران طبقات بحرانی دور میں بھی اپنے منافع کم کرنے کی بجائے محنت کشوں کی تنخواہوں میں کمی اور ان کی تعداد کو کم کر دیتے ہیں۔ اپنے بحران کا بوجھ محنت کش طبقات پر ڈالتے ہیں۔ ایسے میں اس سرمایہ داری نظام کی کسی شکل پر بھی بھروسہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گا۔ ہمیں اپنی سیاسی قوت اور طاقت کو مزید طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنا اور اسے انقلابی سوشلزم کے نظریات سے اور زیادہ قریبی طور پرجوڑنا ہو گا۔