فارو ق سلہریا
’مقبو ل‘عرفان خان کی پہلی فلم نہیں تھی لیکن میں نے پہلی بار انہیں ’مقبول‘میں دیکھا۔ میرا پہلا تاثر تھا: یہ بندہ تو نصیر الدین شاہ کے پائے کی چیز ہے۔
کسی انٹرویو میں انہوں نے خود بھی کہا کہ وہ دلیپ کمار اور نصیر الدین شاہ سے متاثر تھے۔ اپنے کرئیر کی ابتدا میں یہ سوچ کر کنفیوز ہوتے کہ ان کی شکل و صورت روایتی ہندوستانی ہیرو والی نہیں مگر جب انہوں نے نصیرالدین شاہ کا کام دیکھا تو انہیں سمجھ میں آیا کہ اداکاری میں تو آسمان ہی حد ہے۔
جب ’مقبول‘ دیکھی تو مجھے ان کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔ میں تو فلم وشال بھردوادج یا پنکج کپور اور تبو کی وجہ سے دیکھنے بیٹھا تھا۔ بلاشبہ’مقبول‘ میں پنکج کپور اور تبو نے بھی لازوال اداکاری کی مگر عرفان خان کی آواز، آنکھیں اور تاثرات کئی دن تک فلم بین کو ہانٹ(Haunt) کرتے ہیں۔
فلم دیکھنے کے بعد گوگل سرچ کیا تو نام اور کام بارے تھوڑی جانکاری ملی۔ اس کے بعد اگر کاسٹ میں عرفان خان کا نام نظر آیا تو فلم ضرور دیکھی۔ ان کی پچاس فلموں میں شائد انگریزی میڈیم ہی ابھی تک نہیں دیکھ سکا۔ اب تو کچھ دنوں تک شائد دیکھنے کی ہمت بھی نہ ہو۔
پچھلے تیس سال میں شارخ خان، نوازالدین صدیقی یا منوج باجپائی کے علاوہ اگر کسی نے بالی وڈ میں بغیررشتے داری کے اتنا نام کمایا تو وہ عرفان خان ہیں۔ یہی نہیں، پچھلے بیس سالوں میں اگر کسی ہندوستانی اداکار نے عالمی سطح پر اتنا نام کمایا تو وہ بھی عرفان خان تھے۔ ایک کے بعد ایک فلم نے عالمی ایوارڈ جیتے۔
’مقبول‘کے بعد ’پان سنگھ تومر‘، ’لنچ باکس‘اور’پیکو‘میں ان کی کارکردگی کو لوگوں نے بہت سراہا لیکن ان کی جس فلم کو میں نے دو تین بار دیکھا وہ تھی ’قریب قریب سنگل‘۔
مجھے لیکن عرفان خان کی انتھک محنت یا کامیابی، منفرد اداکاری اور روایتی ہیرو کی متھ (Myth) توڑنا ہی اچھا نہیں لگا۔ سماجی مسائل پر ان کا موقف بھی قابلِ ستائش ہوتا تھا۔ کھل کر، لگی لپٹی رکھے بغیر سیکولر موقف اختیار کرتے۔ ان کی اہلیہ ایک بنگالی ہندو تھیں جن سے ان کا تعارف دلی کے انتہائی معتبر نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں دوران ِ تعلیم ہوا۔
نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں انہیں 1984ء میں سکالر شپ پر داخلہ ملا تھا۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ بمبئی چلے آئے اور سالہا سال کی جدوجہد کے بعد انہیں 2001ء میں ’وارئیر‘ میں کام اور بریک ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انہیں یہ کام ملا تب تک وہ مایوس ہو کر اداکاری ہی چھوڑ نے کا سوچ رہے تھے۔
ایک موقع تو انہیں پہلے بھی ملا جب ’سلام بمبے‘میں انہیں میرا نائر نے کاسٹ کیا مگر بعد ازاں ان کا کردار اس فلم سے ختم کر دیا گیا۔ ’سلام بمبے‘ نے عالمی شہرت حاصل کی۔ ۔ ۔ لیکن میرا نائر کے ساتھ عرفان نے دوبارہ ’نیم سیک‘ میں کام کیا او ر اس فلم نے بھی دنیا بھر میں توجہ حاصل کی۔
گویا 54 سال کی ان کی اپنی زندگی کسی فلم سے کم نہیں۔ ان 54 سالوں میں وہ لمبی نہ سہی مگر بڑی زندگی گزار کر۔ ۔ ۔ ان کے اپنے بقول۔ ۔ ۔ گذشتہ روزکہیں ٹرانسفر ہو گئے”انتقال کو انگریزی میں ٹرانسفر ہی کہتے ہیں نا“۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔