جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں

جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں
عشرت کی شاعری ان مخصوص موضوعات سے زیادہ سروکار نہیں رکھتی جو آج کی شاعری کے فیشن میں شامل ہیں اور ہر نیا شاعر اپنے وجود کا جواز ثابت کرنے کے لئے ان موضوعات پر شعر کہتا ہے…دراصل اس کی شاعری کی روح اس کا ذاتی تجربہ ہے اور یہ تجربہ معاشرے کی حقیقت بھی ہے اور اس کے دل کی آواز بھی۔
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں
اے آبنائے رنگ و بو
جان بچانے والی تمام ادویات
ہم دل و جاں لٹا کے آئے ہیں
نتیجہ یہ ہے کہ اخلاقی اور انسانی قدروں کی قدرو منزلت کے بجائے معاشرے میں انتہا پسندی فروغ پارہی ہے اور بھائی چارے کی جگہ ہر چیز کو تنگ نظری کی عینک سے دیکھا جارہاہے۔ شعر وادب کے گرتے ہوئے معیار پر جذبی کا تبصرہ آج بھی اسی طرح درست نظرآتا ہے جس طرح ستر سال پہلے تھا:
یہاں نہ شعر سناؤ، یہاں نہ شعر کہو
خزاں پرستوں میں گلہائے تر کی قیمت کیا
ملیں لٹیروں سے لے لو
نظم چکلے ایک احتجاجی نظم ہے، جس میں ساحر نے سماج کے ان لوگوں سے احتجاج کیا ہے جو خودی کے محافظ، مذہب کے ٹھیکیدار ہیں۔