ساحر کا ذہن بچپن سے ہی برطانوی حکومت اور سامراجیت کے خلاف ایک انقلابی اور باغی شکل اختیار کر چکاتھا، یہی وجہ تھی کہ ان کا مارکسی اور سوشلسٹ ذہن ان کی شاعری میں بھی کام کرتا رہا۔
شاعری
[molongui_author_box]یہ دنیا دو رنگی ہے
جب تک اونچ اور نیچ ہے باقی ہر صورت بے ڈھنگی ہے
قحط
زندانوں میں قحط پڑا ہے
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن: مخدوم محی الدین
وہ ترقی پسند سیاست کے نہ صرف کارکن بلکہ اس کی ادبی اور فکری اساس کے بانیوں میں شامل تھے۔
غزل: کب تک مزار شوق پہ سجدا کریں گے ہم؟
رسم دعا کوبھیڑ میں رسوا کریں گے ہم
آؤ کہ کوئی خواب بنیں
تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں
عجب انداز سے پھیلے گا زنداں ہم نہ کہتے تھے؟ جاں نثار اختر
دوسری عالمی جنگ کا منظر نامہ بھی اس غزل کا پس منظر بیان کر رہا ہے۔ سڑک پر انسانیت کا ایک بے جان جسم چادر میں ملبوس پڑاہے۔
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
تاج محل
سینہ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور